ہوگا۔ مانند موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام تو ہو نہیں سکتے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام ماں باپ سے پیدا ہوئے۔ جب کہ عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہوئے۔
عیسیٰ علیہ السلام نے شادی بیاہ نہیں کیا ان کی اولاد بھی نہیں ہوئی۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام نے نکاح بھی کیا ان کے بچے بھی ہوئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام نے جنگیں بھی لڑیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے فرمان کے مطابق نئی شریعت نہیں لائے۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام مستقل شریعت لائے۔ موسیٰ علیہ السلام کی مانند یہ تمام صفات حضرت محمد رسول اﷲﷺ میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
۳… تیسرے آنے والا نبی خود کچھ نہیں کہے گا جو اسے اﷲ فرمائے گا وہی کہے گا۔ یہی بات قرآن عزیز میں اﷲتعالیٰ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ (النجم:۳،۴)‘‘ {یعنی محمد رسول اﷲﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کی طرف اﷲتعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔}
۴… آخری آیت میں موسیٰ علیہ السلام اقوام عالم کو حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی مکمل اتباع کی تلقین کر رہے ہیں کہ جو شخص بھی انسانوں میں سے اسے نبی کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کے فرمان پر وہ عمل پیرا نہ ہوگا تو وہ خدا کی گرفت، پرسش اور اس کے عذاب سے نہ بچ سکے گا۔
۶… تورات ہی میں ایک دوسرے مقام پر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے دنیا سے اپنی روانگی یعنی وفات کے وقت یہ کلمات کہے۔ ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لئے آتشیں شریعت تھی۔ وہ بے شک قوموں سے محبت رکھتا۔ اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا۔‘‘
(استثناء باب۲۳، آیت نمبر۲تا۳)
اس آیت میں سینا سے مراد کوہ سینا پر وحی الٰہی جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اس کا ذکر ہے۔ شعیر سے وہ مقام مراد ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور فاران سے مکہ مکرمہ کا وہ مقام مراد ہے جہاں کھڑے ہوکر حضورﷺ نے اعلان نبوت فرمایا۔
باقی آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نبی کی نبوت کی عالمگیریت اور عظمت بیان فرمارہے ہیں۔
۷… زبور میں حضرت داؤد علیہ السلام حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی آمد کی پیش