اور یہ چکر آج تک اسی طرح چل رہا ہے۔ تب میں نے سوچا مالا یدرک کلہ لا یترکہ کلہ اسے اسی طرح شائع کر دیا جائے کہ شاید خداوند عالم آئندہ اس کے لئے کوئی بہتر صورت پیدا فرمادے۔
آج اس مجموعہ مضامین کو دوبارہ شائع کرتے ہوئے مسرت کی ایک لہر میرے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہے کہ جس مسئلہ کو ہمارے اکابر نے اٹھایا اور جس کے بیان اور وضاحت میں ہم نے اپنی بساط کی حد تک قلم وبان کو کھپایا۔ الحمدﷲ کہ اس کا ایک حصہ رب کی کرم فرمائیوں اور پاکستان کے غیور وجسور مسلمانوں کی قربانیوں سے حل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں قادیانیوں کو ان کی اصلیت کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاچکا ہے اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جہاں جہاں مرزائی ڈیرے جمائے ہوئے اور ایک عالم کو ورغلائے ہوئے تھے۔ وہاں وہاں کے لوگ ان کے فریب سے آگاہ ہوچکے اور انہیں اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب رب کا غضب وجلال انہیں پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے کر اسی طرح نیست ونابود کر دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے ان کے اسلاف طلیحہ، اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کے پیروکار کو کیا ہے۔ اس مجموعہ کے اکثر مضامین میںیہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزائی ایک علیحدہ امت ہیں اور ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور آج جب کہ مرزائیوں کو پاکستان میں بھی غیرمسلم اقلیت قرار دیا جاچکا ہے۔ ظاہراً اس کتاب کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن میں اس کی ضرورت کو آج بھی اسی طرح محسوس کرتا ہوں۔ جس قدر اس کی اشاعت اوّل کے وقت تھی۔ کیونکہ قادیانیوں نے ہنوز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا اور ابھی تک اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر مصر ہیں۔
اس سے جہاں ان کے اس فریب کا پردہ چاک ہوگا۔ وہاں اس بات کی بھی تصدیق ہوگی کہ دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ درست تھا۔ اسی طرح جس طرح کہ دنیا کے اکثر مسلمان ممالک ویسے ہی فیصلے صادر کرچکے ہیں۔
’’وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘
احسان الٰہی ظہیر
مورخہ۱۲؍اپریل ۱۹۷۵ء