بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
مقدمہ، طبع ثانی
’’مرزائیت اور اسلام‘‘ کو پہلی مرتبہ شائع کرتے ہوئے اس بات کا خیال تک نہ تھا کہ احباب اسے اس قدر پذیرائی بخشیں گے کہ تھوڑی مدت بعد ہی اس کا حصول مشکل ہو کر رہ جائے گا اور اس کی شہرت پاکستان سے نکل کر سمندر پار تک جاپہنچے گی۔
اﷲتعالیٰ کا صدشکر کہ اس نے ختم نبوت کی چوکیداری اور سارقین نبوت کی گوشمالی کو شرف قبولیت بخشا کہ پاکستان بھر میں قادیانیت کا تعاقب کرنے والوں نے اس کتاب کو اپنی تقریروں میں حوالہ کے طور پر استعمال کیا اور قادیانیوں کو اس کے آئینے میں مرزائی اکابر کے چہرے دکھلاتے رہے اور لوگ ان ’’نقاب دار تقدس مآب‘‘ لوگوں کے بے نقاب چہروں کو دیکھ کر حیران وششدر رہ گئے۔
اس سلسلہ میں نائیجیریا سے ایک مسلمان مبلغ نے کہ سعودی عرب نے انہیں اپنے خرچ پر دین حنیف کی تبلیغ اور مرزائیت کے تعاقب واستیصال کے لئے بھیجا تھا۔ مجھے لکھا: ’’آپ کی عربی اور انگریزی کتاب قادیانیوں کے لئے ضرب کلیمی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہاں خاصی بڑی تعداد میں تقسیم کی گئی۔ خداوند کریم اس پر آپ کو جزائے خیر عطاء کرے۔ لیکن آپ کی مختصر اردو کتابوں کو دیکھتے ہی پاکستان سے وارد شدہ قادیانی مبلغوں کے چہرے اس قدر تاریک ہوجاتے ہیں کہ انہیں الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ میرے خیال میں اس کتاب کو بھی افریقہ میں اور خصوصاً ان علاقوں میں جہاں اردو بولنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ضرور پھیلانا چاہئے۔‘‘
اسی بناء پر سعودی حکومت کے نشرواشاعت اور تبلیغ ودعوت کے مختلف شعبوں نے مجھے متعدد دفعہ اس کی اشاعت نو کے بارہ میں لکھا۔ لیکن میں اپنی بے شمار متنوع مصروفیات کی بناء پر اس کے لئے وقت نہ نکال سکا کہ میں چاہتا تھا کہ طبع نو سے پہلے اس پر نظر ثانی کر لی جائے۔ لیکن واحسرتا! کہ قصدوارادہ کے باوصف آج تک وہ طائر عنقاء دام میں نہ آسکا کہ فراغت کہیں جسے، کہ سیاسی ومذہبی اور کاروباری مصروفیات سے جو فرصت کے لمحات میسر آئے وہ چند زیادہ اہم تصنیفات اور مشغولیات میں صرف ہو جاتے ؎
یجری الریاح بما لا یشتہی السفن