وعیسیٰ ابن مریم من قبر واحد بین ابی بکر وعمر (مشکوٰۃ شریف ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)‘‘ {حضرت عیسیٰ ابن مریم زمین کی طرف اتریں گے۔ پس شادی کریں گے اور ان سے اولاد ہوگی۔ پینتالیس سال رہیں گے۔ (علے اختلاف الروایات) اور فوت ہوکر میرے پاس میری قبر میں مدفون ہوںگے۔ پھر میں اور عیسیٰ ابن مریم ایک قبر سے ابوبکرؓ وعمرؓ کے درمیان اٹھیں گے۔}
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا عقیدہ رکھنا چونکہ خلاف قرآن وحدیث ہے تو حضور اقدس جیسے مقدس وجود کی طرف یہ عقیدہ منسوب کرنا (جو اخلاق نبوی سے مکمل طور پر مزین ہوں جن کا وجود مسعود ناطق قرآن ہو) محض افتراء ہوگا۔
لب لباب لاولی الباب
جس وقت یہ امور معرض ثبوت میں آچکے کہ حضور نے احمدیہ فرقہ کو ناری فرقوں میں داخل فرمایا۔ مرزاقادیانی نے بھی لکھا ہے کہ: ’’حضور قبلہ اقدس نے مجھے کافر اور کاذب جانا ہے۔‘‘ نیز مرزاقادیانی کے جمیع عملیات واعتقادیات حضور قبلہ اقدس کے ارشادات کے بالکل متضاد ہیں تو اب بھی اس قسم کی اشاعت کرنا کہ حضرت قبلہ اقدس مرزاقادیانی کے دعاوی کے مصدق ہیں یا مرزاقادیانی کو من عباد اﷲ الصالحین تحریر فرماگئے ہیں۔
حضور قبلہ اقدس وجمیع عامہ اہل اسلام کے لئے دل آزاری وایذاء روحانی کا موجب ہوگا۔ کیونکہ خداوند کریم فرماتا ہے۔ ’’والذین یؤذون المؤمنین والمومنات بغیر ماکتسبوا فقد احتملوا بہتانا واثما مبینا‘‘ {جو لوگ مؤمنوں کو ناکردہ فعل کے متعلق ایذا دیں تو انہوں نے بہتان عظیم وگناہ کبیر کا ارتکاب کیا۔}
مباش درپے آزار ہرچہ خواہی کن
کہ درشریعت ماغیرازیں گناہ نیست
ایذاء جسمانی جب موجب عقاب وعتاب ہے تو ایذا روحانی جس کو ایذاء جسمانی کے ساتھ سمندر اور قطرہ کی نسبت ہے۔ ہزار درجہ زیادہ عذاب شدید کا موجب ہوگا۔ جہاں تک دیکھا جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہر گناہ وجرم کا اصل بنیاد آزار دل ہے۔ جیسے کہ کفر کی حقیقت آزار رسول اﷲﷺ میں مرکوز ہے۔ انسان توحید کا قائل ہوتے ہوئے اگر انکار رسالت کرے یا حضور اکرمﷺ کے شان برتر میں ذرہ بھر گستاخی کرے تو قرآن کریم کا ایسے انسان پر فتویٰ کفر ثبت