نے یہودیوں کے اس قول کی تردید کی اور فرمایا: ’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ یہودیوں نے نہ حضرت کو قتل کیا ہے ورنہ اسے سولی دی ہے۔ لیکن یہودیوں کو عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا شبہ ڈالا گیا ہے۔
اتنے لفظ سننے سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو مانا کہ حضرت عیسیٰ نہ قتل ہوا ہے اور نہ سولی دیاگیا ہے۔ لیکن کہاں گیا۔ اس خدشہ کو دفع فرمانے کے لئے ارشاد ہوا۔ ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ یعنی یہودیوں نے یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اس کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا ہے۔ اگرچہ اس لفظ رفع سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس پر موت عرفی واقع ہوئی ہوتی تو اماتہ اﷲ کا لفظ کہا جاتا۔ کیونکہ خداوند کریم نے قرآن شریف میں موت کے ذکر کو اس قسم کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ موت کی بجائے رفع کا لفظ ذکر کرنا حکمت سے خالی نہیں۔ تاہم ضعیف شبہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع تو تسلیم، لیکن اس قسم کی وضاحت نہیں کہ حضرت عیسیٰ بجسد عنصری آسمان پر اٹھائے گئے۔ موت عرفی واقع ہونے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روح اطہر اٹھایا گیا۔ (روح تو ہر نیک مرد کا آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس میں خصوصیت نہیں)
خداوند کریم علام الغیوب نے اس موت وحیاۃ مسیح کے جھگڑا کو مٹانے کے لئے خبر دی۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا (النسائ:۱۵۹)‘‘ اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اس پر ایمان لاویں گے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔
عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق شبہات قتل اور سولی کی تردید فرمانے کے بعد یہ ارشاد فرمانا کہ اہل کتاب حضرت کی موت سے پہلے اس پر ایمان لائیں گے۔ اس امر کی بیّن دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پر ابھی تک موت عرفی واقع نہیں ہوئی۔ بلکہ حسب فرمودہ حضور نبی کریمﷺ جو درحقیقت فرمان خدا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے اور کچھ عرصہ رہنے کے بعد فوت ہوںگے۔ مدینہ طیبہ میں حضور نبی کریمﷺ کے روضۂ اطہر میں مدفون ہوںگے۔
ابن الجوزی کتاب الوفاء میں حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ ’’ینزل عیسیٰ ابن مریم الیٰ الارض فیتزوج ویولدلہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا