ملفوظ شریف جس کو مولوی رکن دین نے ۱۹؍رجب ۱۳۱۰ھ سے شروع کر کے ۲۴؍محرم ۱۳۱۲ھ تک یعنی ایک سال ۶ماہ ۵یوم کے عرصہ میں ختم کیا ہے۔ صرف ۲۴مقبوس تحریر ہوئے۔
جلد دوم جس کو ۲۶؍محرم الحرام ۱۳۱۲ھ سے لے کر ۲۶؍ربیع الثانی ۱۳۱۴ھ تک دو سال تین ماہ کے عرصہ میں ختم کیا جاتا ہے۔ ۴مقبوس درج ہوتے ہیں۔ تقریباً چار سال کے عرصہ میں ۱۱مقبوس تحریر کئے جاتے ہیں اور مرزاقادیانی کے متعلق ان دونوں جلدوں میں کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ لیکن جب مولوی غلام احمد اختر کی اخوت مولوی رکن دین سے مستحکم ہوتی ہے اور مرزاقادیانی کے مراسلات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ذرا مولوی صاحب کا زور قلم ملاحظہ فرمائیے کہ اس جلد ثالث کو جس میں مرزاقادیانی کے مراسلات کی آمدورفت اور اپنے اخویم مولوی غلام احمد اختر کی قلم سے ترسیل جوابات کا ذکر کیاگیا ہے۔ سات ماہ ۴یوم کے عرصہ میں ۸۷مقبول تحریر کر کے ختم کر لیتے ہیں۔ عیاں راچہ بیاں!
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تیسری جلد کی تالیف جس میں نہایت عجلت سے کام لیاگیا ہے۔ مولوی رکن دین کی واحد شخصیت کی استطاعت سے باہر ہے۔ بلکہ مولوی غلام احمد اختر کی رفاقت نے مولوی رکن دین کی قوت تحریر میں چند گنا اضافہ کر دیا۔ جس سے سات ماہ کا کام چار سال کی کارکردگی سے زائد ہوگیا۔ اس کے بعد مولوی صاحب کی قلم پھر اپنی اصلی اور فطرتی طاقت کی طرف راجع ہوئی۔ حسب دستور سابق تین سال اور چاہ ماہ کے عرصہ میں جلد چہارم اور پنجم لکھاگیا۔ ان میں بھی مرزاقادیانی کے متعلق کوئی ذکر نہیں کیاجاتا۔ صرف جلد چہارم کے ایک مقام پر غلط بیانی سے کام لیاگیا ہے۔ جس کے متعلق عنقریب تفصیل بیان کی جائے گی۔ العیاذ باﷲ! اگر حضور قبلہ اقدس نے قادیانی نبی کے دعاوی کی تصدیق فرمائی ہوتی تو مابین تعلقات میں یوماً اضافہ ہوتا رہتا۔ سلسلہ مراسلات بدستور جاری رہتا۔ لیکن چوتھی اور پانچویں جلد میں نہ کہیں دعاوی مرزا کی تصدیق اور نہ مراسلات کا ذکر کیاگیا ہے۔ ان حالات کو بغور دیکھنے سے ہر ذی فہم انسان اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔
کوئی بات تو ہے جس کی پردہ داری ہے
اشارات فریدی جلد سوم کو حضور قبلہ اقدس کی خدمت میں بغرض اصلاح وصحیح پیش نہیں کیاگیا۔
مولوی رکن دین مؤلف اشارات نے لکھا ہے کہ جو کچھ ملفوظات شریف قلم بند کئے گئے ہیں۔ حضور قبلہ اقدس کے مطالعہ سے مشرف ہوکر اصلاح پذیر ہوچکے ہیں۔ تیسرے جلد کے