کلیتہ مفقود ہوا کرتی ہیں۔ انہیں افراد سے یہ سنی نما مرزائی مولوی غلام احمد اوچی، حضور قبلہ اقدس کی خدمت میں بدیں طور عقیدت مندی ظاہر کیا کرتا تھا۔
اے بردہ زخود توحید ترا
از کون ومکان تجرید ترا
اسرار سلوک پدید ترا
دل باخت ہر آنکس دید ترا
اے نام غلام فرید ترا
از خضر حیات مزید ترا
حقاکس مثل ندید ترا
حضرت سجادہ نشیں مددے
اس سنی نما مرزائی یعنی مولوی غلام احمد اختر کے دوران قیام چاچڑاں شریف سے چار سال پیشتر مولوی رکن دین حضور قبلہ اقدس کے ملفوظات جمع کرنے میں مصروف تھا۔ ازاں اس نے موقعہ پاکر مولوی رکن دین کے ساتھ رشتہ عقیدت ورابطہ مؤدت مستحکم کرنے کے لئے مناسب تجاویز اختیار کیں اور رقومات بطور نذرانہ پیش کرنے لگا۔ مولوی رکن دین جب مسحور رقومات ہوچکے تو اختر صاحب نے مرزاقادیانی نبی کے مراسلات کا سلسلہ شروع کرادیا اور اختر صاحب کی قلم افتراء رقم سے ترسیل جوابات جاری رہے۔ جس کے متعلق مولوی رکن دین کی تحریر شاہد ہے۔ ازاں مولوی رکن دین نے اپنے اخویم مولوی غلام احمد اختر کی طیب خاطر کے لئے چند مقبوسات میں مرزاقادیانی کے متعلق خود پیدا کردہ الفاظ تحریر کر دئیے۔ ملفوظات شریف یعنی اشارات فریدی کے جمیع جلدوں کو اوّل سے آخر تک بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔
دیکھے نہ چشم کور تو اپنا قصور ہے
بیّن دلیل
مولوی رکن دین نے ۱۹؍رجب ۱۳۱۰ھ سے ملفوظات شریف قلم بند کرنے شروع کئے اور ۶؍ربیع الثانی ۱۳۱۹ھ تک ۳۸۲ مقابیس جمع کر کے پانچ جلدوں میں ترتیب دے کر فراغت حاصل کی اور اس کتاب کا نام اشارات فریدی رکھا۔ گویا مولوی رکن دین کو ۸سال ۹ماہ ۱۷یوم کے طویل عرصہ میں ایک سال ۲۲یوم دربار معلے میں شرف حاضری حاصل ہوا۔ کیونکہ مولوی رکن دین کو جس یوم حاضر ہونے کا موقعہ ملتا اسی یوم کے اذکار واقعات ایک مقبوس میں تحریر کرتا۔ جلد اوّل