لئے صحابہ کرامؓ کو جہاد کے لئے بھیجا۔ اس جہاد میں بارہ صد صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ جب کہ مسیلمہ کذاب کے لائے ہوئے چالیس ہزار افراد میں سے اٹھائیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ حالانکہ مسیلمہ کذاب اپنے دعویٰ نبوت کے باوجود خود اور اپنے ماننے والوں سمیت مسلمانوں کے طریقے پر اذان دیتا۔ مسلمانوں کے طریقے پر نماز پڑھتا اور تمام اسلامی احکام وفرائض کو تسلیم کرتا اور حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی نبوت کا اقرار بھی کرتا تھا۔ لیکن صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہوا کہ دعویٰ نبوت کے سبب مسیلمہ اور اس کے ماننے والے ان تمام اسلامی احکامات کے بجا لانے کے باوجود کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ (تاریخ طبری ج۳ ص۲۵۴)
منکرین ختم نبوت کی سرکوبی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے
۱… حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں ہی ایک شخص طلیحہ نامی نے دعویٰ نبوت کیا۔ حضرت صدیقؓ نے اس کے قتل کے لئے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مقرر کیا۔ لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ کر روپوش ہوگیا اور ہاتھ نہ آیا۔
۲… خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں حارث نامی ایک شخص نے دعویٰ نبوت کیا۔ اس وقت کے علماء (جو کہ صحابہ وتابعین کی جماعت پر مشتمل تھے) نے متفقہ طور پر اس کے سولی چڑھانے کا فتویٰ دیا۔ خلیفہ نے اس فتویٰ پر عمل کیا اور اسے قتل کرادیا۔ اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے دوسرے مسلمان خلفاء کے اس معاملہ میں طرز عمل کا بھی یوں ذکر کیاگیا۔
’’وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباہہم واجمع علماء وقتہم علی صواب فعلہم والمخالف فی ذالک من کفرہم فہو کافر‘‘
اور بہت سے خلفاء اور سلاطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے اور اس زمانے کے علماء نے ان کے اس فعل کو درست ہونے پر اجماع کیا اور جو شخص ایسے مدعیان نبوت کی تکفیر میں خلاف کرے۔ (یعنی انہیں کافر نہ سمجھے) وہ خود کافر ہے۔ (شفاء قاضی عیاض)
عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے فقہاء کرام کے فتوے
۱… عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے۔ اس لئے مسلمان ہونے کے لئے اس عقیدہ پر یقین وایمان رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ فقہاء کرام کا اس ضمن میں متفقہ فتویٰ یہ ہے۔ ’’اذا لم یعرف ان محمدؐ اخر الانبیاء فلیس بمسلم لانہ من ضروریات الدین‘‘