پیغمبر اسلام علیہ السلام کے بعد چند شریر اور بدمعاش اٹھے۔ جنہوں نے نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا اور ان کی بیعت کرنے والے بدبخت لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہوگئے۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے بھی نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:
۱۰۹… ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
(بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
شاید کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ وہ جھوٹے پیغمبر منکر اسلام تھے اور مرزائی بظاہر مصدق اسلام ہیں۔ سو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ جو نوعیت دعویٰ اسلام کی اس وقت مرزائیوں کی ہے۔ وہی نوعیت ان کی تھی۔ یعنی جس طرح مرزائی مرزاقادیانی کے انکار کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وہ بھی مسلمانوں کو اپنے خانہ ساز پیغمبروں کے انکار کی وجہ سے کافر سمجھتے تھے۔ ورنہ اسلام کے دعویدار بظاہر وہ بھی تھے۔ چنانچہ اس امر کا اعتراف خود امت مرزائیہ کو بھی ہے۔ ملاحظہ ہو:
۱۱۰… ’’مسیلمہ کذاب مع اپنی جماعت کے بظاہر اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔ اعمال سحریہ وغیرہ میں اس کو بڑا دخل تھا۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ بہت کثیر آدمی ہوگئے تھے۔‘‘
(ریویو ج۷ نمبر۶،۷، ماہ جون وجولائی ۱۹۰۸ء ص۲۲۶ قادیان)
مگر باوجود ان تمام ناقابل رہائی ایمان ربا دلفریبیوں اور باطل پرستیوں کے پھر بھی ان گرفتاران الحاد وضلالت میں بعض ایسے اشخاص موجود ہوتے ہیں کہ جن میں فطرتی طور پر کوئی نہ کوئی نیکی اور خوبی پوشیدہ ہوتی ہے۔ جس کی بدولت کبھی نہ کبھی ایسے گمراہ شدہ انسان بھی خداوندان عالم کی رہنمائی میں صداقت ابدی یعنی نور اسلام کی طرف رجوع کر لیتے ہیں۔
ان میں سے ایک ہمارے ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا فی عرصہ مرزاقادیانی کے مرید رہے۔ آخر ہادی برحق نے ان کی رہنمائی کی اور ان کو شمع ہدایت سے منور فرمایا۔ ’’ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ‘‘
چونکہ ڈاکٹر صاحب صدق وصفا کی خصلت رکھتے تھے اور رشد وسعادت کی علامات ان کے چہرے سے نمایاں تھیں۔ نیز خداتعالیٰ کو منظور تھا کہ ان سے اسلام کی خدمات لی جائیں۔ اس لئے ترک مرزائیت کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف نے نہایت تحدی کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ خداوندی عالم نے بذریعہ الہام مجھے اطلاع دی ہے کہ میں صادق ہوں اور مرزاقادیانی کاذب۔