میر صاحب جوہر صافی رکھتے تھے اور غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں تھا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے ان کے متعلق خود لکھا ہے۔ خداوند عالم کو حضرت میر صاحب کا خاتمہ بالایمان منظور تھا۔ اس لئے اس ہادیٔ مطلق نے میر صاحب کی بروقت دستگیری فرمائی۔ ’’چونکہ انسان اپنی عقل میں غلطی کر سکتا ہے۔ لیکن خدا تو اپنی راہنمائی میں غلطی نہیں کر سکتا۔‘‘ (پیغام احمدیت ص۴۳)
لہٰذا حضرت میر صاحب کو بذریعہ استخارہ معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی جھوٹا ہے۔ میر صاحب، مرزاقادیانی کی بیعت سے تائب ہوکر امت محمدیہ میں داخل ہوگئے اور ان کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت میر صاحب کے جوہر صافی سے مرزاقادیانی اپنا جوہر مکدر صاف کر کے نصیحت اور عبرت حاصل کرتے اور اپنے دعویٰ باطل سے تائب ہو جاتے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی نے ایسا نہ کیا۔ بلکہ حضرت میر صاحب کے ایمان بخش استخارہ کو ہی جھٹلانا شروع کر دیا۔ چنانچہ مرزاقادیانی حضرت میر صاحب کے متعلق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
۱۰۲… ’’میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر میں نے ازالہ اوہام میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے۔ افسوس کہ وہ سخت لغزش میں آگئے۔ بلکہ جماعت اعدأ میں داخل ہوگئے۱؎…
میر عباس علی صاحب نے ۱۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے۔ جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے… میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرماکر تحریر فرمایا ہے کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے۔ چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا۔ میں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریمؐ کی زیارت کراکر اپنے دعاوی کی تصدیق کرا دی جائے اور یا میں زیارت کراکر اس بارہ میں فیصلہ کرادوں گا… ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے۔ حدیت صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی مبرا ہوسکتی ہے۔ جس میں آنحضرتﷺ کو ان کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو۔ ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے اور شیطان لعین تو
۱؎ جماعت اعدأ میں نہیں بلکہ جماعت حقہ امت محمدیہ میں داخل ہوگئے اور مرزاقادیانی کی خانہ ساز نبوت سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوئے کہ ؎
اس دل رسوا کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں
یعنی اک رہزن کو میر کارواں سمجھا تھا میں