۹۱… ’’لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں۔ یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا۔ اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھاگیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیاجائے گا۔ سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے۔ وہ خدا اور اس کے رسولؐ کا نافرمان ہے اور اس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ جب مسیح آئے گا۔ تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے… آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا۔ بند کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا ہے اور اپنا نام غازی رکھتا ہے۔ وہ اس رسول کریم کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے فرمادیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص ب، خزائن ج۱۶ ص۱۷،۲۸)
۹۲… ’’ان الحرب حرمت علیٰ… فلا جہاد الا جہاد اللسان‘‘ یہ سچ بات ہے کہ کافروں کے ساتھ لڑنا مجھ پر حرام کیاگیا ہے۔ پس کوئی جہاد سوائے زبانی جہاد کے باقی نہیں رہا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۲۵، خزائن ج۱۶ ص۵۸،۵۹)
۹۳… ’’اﷲتعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار۱؎علیؓ فرمایا۔‘‘ (الحکم ج۵ نمبر۲۲، مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۱ئ، تذکرہ ص۷۳ طبع سوم)
۹۴…
صف دشمن کو کیا ہم نے بہ حجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
(آئینہ کمالات ص۲۲۵، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۹۵… ’’اس وقت ہمارے قلم رسول اﷲﷺ کی تلواروں کے برابر ہیں۔‘‘
(ملفوظات ج۱ ص۱۷۸)
۱؎ ذوالفقار علیؓ نے تو کفار ومرتدین کا قلع قمع کیا تھا۔ مگر مرزاقادیانی کے قلم نے اہل اسلام کی مذمت کرتے ہوئے اپنے مسلمہ دجال (نور الحق حصہ اوّل ص۵۷) انگریز کی مدح وتعریف کی۔ پس قلم مرزا کو ذوالفقار علی سے کیا نسبت۔
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک