ورسول پر اعتراض کرنا چاہئے۔ جنہوں نے قرآن وحدیث میں جہاد کے بیشمار فضائل بیان فرمائے ہیں۔ علماء کرام پر اعتراض کس لئے، علماء تو صرف مبلغ قرآن اور داعی اسلام ہیں)
۸۵… ’’جو لوگ مسلمانوں میں سے ایسے بدخیال جہاد اور بغاوت کے دلوں میں مخفی رکھتے ہیں۔ میں ان کو سخت نادان اور ظالم سمجھتا ہوں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۶)
۸۶… ’’اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا۔ جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے۔ تاہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا۔ کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا… اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے۔ مسیح موعود جو آنے والا تھا، آچکا۔‘‘
(رسالہ جہاد ص۸، خزائن ج۱۷ ص۸)
۸۷… ’’دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔‘‘ (رسالہ جہاد ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۱۵)
۸۸… ’’حدیثوں میں صریح طور پر وارد ہوچکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا… ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے۔ اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے۔ کیونکہ مسیح آچکا… میں امید رکھتا ہوں کہ اگر خداتعالیٰ نے چاہا۔ تو چند سال میں ہی یہ مبارک اور امن پسند جماعت جو جہاد اور غازی پن کے خیالات کو مٹارہی ہے۔ کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی۔‘‘
(ضمیمہ رسالہ جہاد ص۶، خزائن ج۱۷ ص۲۸)
۸۹… ’’یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں اسے یہ فرقہ جس کا امام اور پیشوا میں ہوں۔ ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے۔ بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳۸۹، خزائن ج۱۵ ص۵۱۷)
۹۰… ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی… کہ شیرخوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر نبی کریمﷺ کے وقت میں بچوں۔ بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)