ظاہر ہے کہ انگریز کس انصاف کے ساتھ ہم سے پیش آتے ہیں۔ یاد رکھو کہ اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے۔ میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۲، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۵۸۱،۵۸۴)
حضرت اقبالؒ نے بالکل ٹھیک فرمایا ؎
دولت اغیار را رحمت شمرد
رقصہا گرد کلیسا کردد مرد
یعنی مرزاقادیانی نے غیراسلامی سلطنت حکومت نصاریٰ کو رحمت شمار کیا اور تمام عمر صلیب کے گرد ناچ کیا اور مرگیا۔ کیا اسی کا نام قتل دجال اور کسر صلیب ہے۔
۱۳… ’’اگر گورنمنٹ برطانیہ کی اس ملک ہند میں سلطنت نہ ہوتی تو مسلمان مدت سے (اس کو) ٹکڑے ٹکڑے کر کے معدوم کر دیتے۔‘‘ (ایام الصلح ص۲۶، خزائن ج۱۴ ص۲۵۵)
۱۴… ’’کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیرسایہ ہم رہتے ہیں۔ جس نے ایک ذرہ مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا… کوئی یہ ظاہر کرے کہ میں مجدد وقت ہوں یا ولی ہوں یا قطب ہوں یا مسیح ہوں یا مہدی ہوں۔ اس سے اس عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں۔ بجز اس صورت کے کہ وہ (مدعی) خود ہی طریق اطاعت کو چھوڑ کر باغیانہ خیالات میں گرفتار ہو۔‘‘
(ضمیمہ رسالہ جہاد ص۲، خزائن ج۱۷ ص۲۴)
نوٹ: برادران ملت! جناب خلیفہ صاحب کا یہ بیان کہ ’’احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے۔‘‘ ہم مندرجہ بالا سطور میں خود مرزاقادیانی کی تحریرات سے اس کا مختصر جواب دے چکے اور وہ حقیقت افروز جواب ہے جو کہ ہم سے کئی سال پیشتر نباض مشرق، مفکر اسلام، نقاش پاکستان، حکیم الامت حضرت اقبالؒ قادیانیت کے متعلق بیان فرماچکے ہیں۔
چنانچہ علامہ اقبالؒ ’’قادیانی اور جمہور مسلمان‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں: ’’قادیانیوں اور جمہور مسلمانوں کی نزاع نے نہایت اہم سوال پیدا کیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے حال ہی میں اس کی اہمیت کو محسوس کرنا شروع کیا ہے… ہندی مسلمانوں نے قادیانی تحریک کے خلاف جس شدت احساس کا ثبوت دیا ہے۔ وہ جدید اجتماعیات کے طالبعلم پر بالکل واضح ہے… نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم نبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا اور مغربیت کی ہوانے اسے حفظ نفس کے جذبہ سے بھی عاری کر دیا ہے۔ بعض ایسے ہی نام نہاد تعلیم