یافتہ مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو رواداری کا مشورہ دیا ہے۔ اگر سرہربرٹ ایمرسن مسلمانوں کو رواداری کا مشورہ دیں تو میں انہیں معذور سمجھتا ہوں۔ کیونکہ موجودہ زمانے کے ایک فرنگی کے لئے اتنی گہری نظر پیدا کرنی دشوار ہے کہ وہ ایک مختلف تمدن رکھنے والی جماعت کے اہم مسائل کو سمجھ سکے… ہندوستان میں کوئی مذہبی سٹے باز اپنی اغراض کی خاطر ایک نئی جماعت کھڑی کر سکتا ہے اور یہ لبرل حکومت اصل جماعت کی وحدت کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتی۔ بشرطیکہ یہ مدعی اسے اپنی اطاعت اور وفاداری کا یقین دلا دے اور اس کے پیرو حکومت کے محصول اداکرتے رہیں۔ اسلام کے حق میں اس پالیسی کا مطلب ہمارے شاعر عظیم اکبر نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔‘‘ جب اس نے اپنے مزاحیہ انداز میں کہا ؎
گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ
انا الحق کہو اور پھانسی نہ پاؤ(حرف اقبالؒ ص۱۲۱تا۱۲۵)
پیغام احمدیت: خلیفہ صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’ناواقفوں کے سوالات بہت سطحی ہوتے ہیں۔ بوجہ عدم علم کے بہت سی باتیں وہ اپنے خیال سے ایجاد کر لیتے ہیں۔‘‘ (ص۳)
پیغام محمدیت: جواباً گذارش ہے کہ خلیفہ صاحب اور آپ کی خود ساختہ آل وامت دیگر حضرات کے متعلق توبوجہ عدم علم وغیرہ کے فریب دہ الفاظ کہہ کر عوام الناس کو کسی حد تک غلط فہمیوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔ مگر ایک سابقہ مرید واقف کار کے متعلق تو یہ جرأت نہیں کر سکتی۔ جناب خلیفہ صاحب اور آل مرزائیت جانتی ہے کہ میں قادیانی جماعت میں شامل رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح قادیانی جماعت کا ایک عرصہ تک نمک کھایا اور بدقسمتی سے گرفتار ضلالت ہوکر مبلغ جماعت کی حیثیت سے کام بھی کرتا رہا۔ دوران ملازمت میں مرزائیت کے ہر نشیب وفراز کو دیکھا اور قادیانی امت کے اندرونی وبیرونی اعمال وافعال اور عقائد کا بخوبی محاسبہ کیا۔ بالآخر فضل خداوندی شامل حال ہوا، اور کامل تحقیقات ومعلومات کے بعد اس ہادیٔ مطلق، مقلب القلوب نے محض اپنے مخصوص فضل وکرم کے ساتھ مرزائی مذہب سے توبہ کی توفیق عنایت فرمائی ؎
بے حجابی سے تیری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کوآسماں سمجھا تھا میں
اب ترک مرزائیت اور قبول حق کے بعد تمام مرزائی امت کو میری جانب سے مخلصانہ اور ہمدردانہ یہی پیغام ہے کہ ؎