تصانیف ہذا العبد فی اللسان الہندیۃ‘‘ یعنی مذکورہ بالا باتیں براہین احمدیہ جو اس بندہ کی تصنیفوں میں سے ہے۔ اردو زبان میں یہ سب متفرق طور پر اس میں لکھی گئی ہیں۔ کیا یہ بعینہ اس شعر کا مصداق نہیں ؎
چہ خوش گفت ست سعدی درزلیخا
الا ایہا الساقی اور کاسا وناولہا
مارے گھٹنا سر لنگڑا۔ تصنیف تو کرے خود، کتاب ہو خدا کی۔ وہ کیا خوب۔
۴… ’’کشفی طور پر ایک مرتبہ مجھے ایک شخص دکھایا گیا۔ گویا وہ سنسکرت کا ایک عالم آدمی ہے جو کرشن کا نہایت درجہ معتقد ہے۔ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا اور مجھے مخاطب کر کے بولا۔ ہے رودر گوپال تیری استت گیتا میں لکھی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۳۵، خزائن ج۱۷ ص۳۱۶۷)
۵… ’’ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے۔ جس پر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔ کرشن جی کہاں ہے۔ جس سے سوال کیاگیا وہ میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔ یہ ہے۔ پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے۔ اتنے میں ہجوم میں سے ایک ہندو بولا۔ ہے کرشن جی رودر گوپال۔‘‘
(تذکرہ ص۳۸۱، طبع۳)
’’برہمن اوتار سے مقابلہ اچھا نہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۷، خزائن ج۲۲ ص۱۰۱)
نوٹ
۱… حوالہ جات بالا سے قارئین کرام پر واضح ہوا ہوگا کہ ان پر الہام کرنے والا کون ہے۔ جو کبھی بصورت انگریز بولتا ہو اور کبھی بصورت ہندو۔ کیا حق تعالیٰ کی طرف ان واہیات کی بھی نسبت ہوسکتی ہے؟
۲… مسیح موعود کے معنی وہ مسیح جس کا وعدہ دیاگیا ہے۔ اب حیرت ہوتی ہے کہ وعدہ تو تھا صرف مسیح کا۔ یہاں یہ ہوگیا ساری دنیا کے سارے پیغمبر۔ پھر بھی وہ مسیح موعود ہی رہا۔ نہ آدم ہونے نہ نوح وغیرہ ذالک۔ خدا جانے یہ ترجیح بلا مرجح کیسی؟
۳… وعدہ تو صرف اس کا جو مسیح ہو۔ یہ تو صرف مسیح نہیں بلکہ آدم سے لے کر ہندوؤں کے بھی اوتار ہوا۔ تو مسیح موعود یقینا یہ نہیں ہوسکتا۔ دوسرا کوئی اور ہے۔
۴… جب تمام انبیاء علیہم السلام کے نام ان کو دئیے گئے تو جس طرح اور نبی بننے کے دعویٰ میں کسی تکلف کی ضرورت نہ ہوئی۔ پھر خدا جانے مسیح موعود بننے کے لئے کیوں اتنی