الدین اور ڈاکٹر عبدالحکیم وغیرہم شامل تھے اور ہر طرح سے اس کی مدد کرتے رہے۔
وفات مرزا
پھر ۱۹۰۸ئ، ۲۶؍مئی مرض ہیضہ میں ۶۸سال کی عمر میں فوت ہوا۔
(منتخب از کتاب دو نبی مصنفہ مولانا بشیر اﷲ نائب صدر جمعیت علمائ، برما ص۸۸،۸۹)
نوٹ: مرزاقادیانی کے مرض ہیضہ میں فوت ہونے کا بہت سے قادیانی صاحبان کو انکار ہے۔ کیونکہ بقول برنی مرزاغلام احمد قادیانی اپنی تحرریات میں ہیضے کو قہر الٰہی کا ایک نشان قرار دیتے تھے جو سرکشوں پر بطور عذاب نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض مسلمانوں مثلاً مولوی ثناء اﷲ صاحب سے جوان کے مقابلے ہوئے ان میں بھی انہوں نے یہی دعاء کی کہ جو کاذب ہو اس پر ہیضے کی شکل میں موت نازل ہو اور آج قادیانی صاحبان کا ہیضہ کے متعلق یہی عقیدہ ہے۔
چنانچہ (اخبار الفضل قادیان ج۲۴ نمبر۳۰، مورخہ ۴؍اگست ۱۹۳۶ئ) میں ہے کہ: ’’محمد عاشق نائب صدر احرار قصور جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں بے حد بدزبانیاں کیا کرتا تھا؟ ۲؍جولائی کو ہیضہ سے نہایت عبرتناک موت سے مر گیا۔ قصور کے دوسرے احرار کو عبرت حاصل کرنی چاہئے۔‘‘ لہٰذا ہم اس جگہ پر مرزاقادیانی کے اقرار سے اس کو ثابت کرتے ہیں تاکہ شبہ جاتا رہے۔
چنانچہ مرزاقادیانی کا خسر میرناصر صاحب کہتا ہے۔ ’’حضرت (مرزاقادیانی) جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جاکر سوچکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا۔ جب میں حضرت (مرزاقادیانی) کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ میر صاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘ (مرزاقادیانی کے خسر میرناصر قادیانی کے خود نوشتہ حالات مندرجہ حیات ناصر ص۱۴)
ان منزلوں کو طے کرتے ہوئے اس نے اپنے پر الہام اور نزول وحی کے دعویٰ کا سہارا لیا۔ وحی والہام بھی ایسا کہ کبھی تو عربی، کبھی فارسی، کبھی اردو، کبھی انگریزی وغیرہ کبھی مخلوط ومرکب۔
پھر قرآن مجید کی آیات واحادیث نبویﷺ کی جتنی غلط توجیہات ہوسکتی ہیں اور جتنی من مانی تاویلات ممکن ہیں۔ ان کا سہارا لینے میں بھی دقیقہ نہیں چھوڑا۔
ان وحی والہامات، توجیہہ وتاویلات اور اپنے دعاوی میں (آگے چل کر انشاء اﷲ تعالیٰ آپ ایسی باتیں دیکھیں گے) جن سے دل خون اور جگر پاش پاش ہو جاتا ہے۔ زبان وقلم تھرا اٹھتے