بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ محمدن الذی لا نبی بعدہ وعلیٰ آلہ واصحابہ الذین وافوا وعدہ۰ اما بعد‘‘
حضور پرنور، سید الانبیاء والمرسلین، خاتم النبیین، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیﷺ نے جس وقت اﷲتعالیٰ کے حکم سے دنیا کے لئے مشعل ہدایت بن کر سرزمین عرب سے کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کی آواز بلند کی تو ہزاروں نے تو اس پر لبیک کہا اور پروانہ وار ان کے گرد آجمع ہوئے اور ہوتے رہے۔ مگر سچائی کی اس عالم تاب چمک دمک اور شان وشوکت دیکھ کر بعض ہوسناک دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ سو ہم بھی اس قسم کے دعویٰ لے کر اٹھیں۔ شاید ہم کو بھی اس شان وشوکت سے کچھ حصے مل جائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ: ’’قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک تیس کے قریب ایسے دجال (بڑا مکر وفریب کرنے والا) کذاب (بہت جھوٹ بولنے والا) ظاہر نہ ہوں۔ جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہوگا کہ میں اﷲ کا رسول ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ (بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی)
چنانچہ حضورﷺ کے زمانہ فیض نشان سے آج تک بہت سے دجال وکذاب نبوت کے جھوٹے دعویٰ لے کر اٹھے۔ مثلاً مسیلمہ کذاب جس نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر تقسیم نبوت کا مطالبہ کیا۔ آخر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ خلافت میں وحشیؓ کے ہاتھ سے اس کا خاتمہ ہوا۔ اسی طرح اسود عنسی، سجاح، مغیرہ بن سعید مقتول، مختار بن ابی عبید ثقفی، مصعب بن زبیر، سلیمان بن حسن، جس کے دو اشعار درج ذیل ہیں:
الست انا المذکور فی الکتب کلہا
الست انا المنعوت فی سورۃ الزمر
ساملک اہل الارض شرقا وغربا
الیٰ قیروان الروم والترک والخزر
(یعنی کیا میں وہ نہیں جس کا ذکر تمام گذشتہ کتابوں میں ہے۔ (جیسا کہ مرزاقادیانی کہتا ہے) کیا میں وہ نہیں؟ جس کی توصیف سورۂ زمر میں کی گئی۔ عنقریب مشرق ومغرب کے سارے ممالک میرے قبضہ میں آرہے ہیں۔ خواہ وہ قیروان ہو یا ترک یا خزر)
اسی طرح ہشام بن حکیم ملقب بہ مقنع، جو کبھی آدم، کبھی نوح، کبھی ابراہیم، کبھی محمد، کبھی علی مرتضیٰ، کبھی اولاد علی، کبھی ابومسلم خراسانی حتیٰ کہ خدا بننے کا دعویٰ تک کیا۔ (مرزاقادیانی ماشاء اﷲ ایسے دعوؤں میں سب سے بڑھ کر ہے۔ محمد اسحاق غفرلہ)
الغرض ایسے بہت کذاب اٹھے اور بہت کروفر بھی بعضوں نے دکھلائی۔ حلم حق نے