احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۱… ایک وقت وہ تھا کہ خواجہ کمال الدین تمہارے سامنے لیکچروں میں کہتے تھے کہ میں نے مرزاغلام احمد قادیانی کو کبھی نبی ورسول نہیں کہا، اور نہ اب کہتا ہوں اور جو کہے وہ کافر اور خود مرزاقادیانی نے بھی کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ میں سنی حنفی ہوں اور مرزاقادیانی بھی سنی حنفی تھا۔ یہی مضمون خواجہ صاحب نے پرچہ اشاعت اسلام میں بھی لکھا۔ مگر اب چونکہ تمام رنگون خواجہ صاحب اور ان کے پیغمبر قادیانی کی تصنیفات سے گونج اٹھا اور سب نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا کہ خواجہ صاحب نے مرزاقادیانی کو خدا کانبی، رسول، مرسل، برگزیدہ، مرسل نذیر، بشیر، مسیح موعود، مہدی معہود، وغیرہ وغیرہ لکھا اور مرزاقادیانی نے صاف صاف نبی بلکہ افضل الانبیاء ہونے کا دعویٰ کیا۔ لہٰذا اب خواجہ صاحب اسی زبان سے تمہارے سامنے کہتے ہیں اور اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ ہاں میں نے مرزاغلام احمد کو مرسل وپیغمبر لکھا۔ کیا یہ اختلاف بیانی خواجہ صاحب کی سچائی اور ان کے حیا وغیرت کے ثبوت میں کافی نہیں ہے؟ اور کیا اس کے بعد خواجہ صاحب کی کسی بات پر اعتبار کرنا ایمان دار کا کام ہے؟ ۲… خواجہ صاحب اپنی تحریر موسومہ یوسف سلیمان ہال میں جو ۳؍اکتوبر کو دستی پریس میں چھپ کر خاص خاص لوگوں میں تقسیم ہوئی۔ لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے اور مرزاغلام احمد قادیانی کے تمام پیروں نے مرزا کو مجازی طور پر نبی ورسول پیغمبر وغیرہ کہا ہے۔‘‘ تحریر کے علاوہ تقریر میں بھی وہ ایسا ہی کہتے ہیں۔ مگر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے کو حقیقی نبیوں سے افضل کہا۔ اپنے نہ ماننے والوں کو کافر لکھا اور خود تم نے بھی صحیفہ آصفیہ میں مرزا کے نہ ماننے والوں کو کافر بنایا۔ قرآن شریف کا جھٹلانے والا کہا، قحط اور طاعون اور یورپ کی لڑائیوں کو قہر الٰہی اور اس قہر الٰہی کا سبب مرزا کے نہ ماننے کو قرار دیا۔ تو اب مجازی معنی کیسے بن سکتے ہیں۔ اس کا کچھ جواب خواجہ صاحب نہیں دیتے۔ کئی تحریریں بھی ان کو بھیجی گئیں۔ جن میں سے آخری تحریر باگلے صاحب والے جلسہ میں ان کو دی گئی جو بہت مختصر تھی اور جس میں خدا کا واسطہ دے کر جواب مانگا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے کسی تحریر کا جواب نہ دیا۔ ۳… قرآن شریف میں ہے: ’’ومن الناس من یقول اٰمنا باﷲ وبالیوم الاٰخر وماہم بمؤمنین (بقرہ:)‘‘ {بعضے لوگ کہتے ہیں کہ ہم اﷲ پر اور قیامت پر ایمان لائے۔ حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہوئے۔} اور فرمایا: ’’افحسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وہم لا یفتنون (عنکبوت:)‘‘ {کیا لوگوں نے سمجھا ہے کہ صرف آمنا یعنی آمنت باﷲ وغیرہ کہنے سے وہ چھوٹ