احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
امرونواہی کے سب دروازے بند ہوچکے ہیں۔ اب جو کوئی محمدﷺ کے بعد امرونہی کا مدعی ہو (جیسے مرزاقادیانی اربعین نمبر۴ ص۶،۷) وہ اپنی طرف وحی شریعت آنے کا مدعی ہے خواہ وہ وحی ہماری شریعت کے موافق ہو یا مخالف۔ شیخ اکبر کی اس عبارت نے اس امر کو بالکل واضح کر دیا کہ مرزاقادیانی اور ناظر صاحب کے بیان کردہ معنی نبوت تشریعی اور غیر تشریعی غلط ہیں۔ بلکہ آپ کے بعد ’’ہر مدعی نبوت خواہ اس کی وحی پہلی وحی کے مطابق ہو جسے مرزاقادیانی غیر تشریعی نبی فرماتے ہیں یا مخالف۔ جسے آپ تشریعی نبی قرار دیتے ہیں‘‘ اصطلاح شریعت میں تشریعی نبی کہلاتا ہے۔ جو مرزاقادیانی نیز ناظر صاحب موصوف کے بیان کردہ معنی نبوت کے سراسر خلاف ہے۔ نیز امام عبدالوہاب شعرانی نے (الیواقیت والجواہر ص۳۴ ج۲) شیخ اکبر کی مندرجہ بالا عبارت پر عبارت ذیل ’’فان کان مکلفاً ضربنا عنقہ والاضربنا عنہ صفحا‘‘ {پھر اگر وہ مدعی نبوت مکلف ہے یعنی مجنون وغیرہ نہیں تو ہم اسے قتل کریںگے اور اگر مکلف نہیں یعنی دیوانہ ہے تو اس سے اعراض کریںگے۔} کا اضافہ فرماکر اس امر کا فیصلہ فرمادیا ہے کہ امام موصوف کی عبارت مندرجہ پمفلٹ کا وہ مطلب نہیں ہے جسے ناظر قادیان نے بیان کیا ہے۔ بلکہ ایسی نبوت یعنی غیر تشریعی کے مدعی کو بھی امام موصوف واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ شیخ اکبر کی مندرجہ بالا عبارت پر امام موصوف کے اضافہ سے ظاہر ہے۔ شیخ اکبر کی مندرجہ بالا عبارت میں جب یہ امر طے کردیا گیا ہے کہ ہر مدعی نبوت خواہ احکام جدیدہ لانے والا ہو خواہ پہلی شریعت کا تابع ہوکر دعویٰ نبوت کرنے والا ہو۔ اصطلاح شریعت میں تشریعی نبی کہلاتا ہے تو ناظر موصوف کا عارف ربانی عبدالکریم جیلانی اور شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی نیز علامہ لکھنویؒ کی نقل کردہ عبارات میں انقطاع نبوت تشریعی کا یہ معنی بیان کرنا کہ آپ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے وغیر تشریعی نبی جو پہلی شریعت پر عامل ہو۔ آسکتا ہے۔ کتاب اﷲ، سنت رسول اﷲ، اجماع امت نیز شیخ اکبر کی مندرجہ بالا تصریح کے قطعاً مخالف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے اور یہ ان بزرگان ملت پر امت مرزائیہ کی طرف سے علانیہ احکام شرعیہ کی مخالفت کا جھوٹا الزام ہے۔ اسی طرح مولانا محمد قاسم صاحبؒ بانی دارالعلوم دیوبند کی غیر متعلقہ عبارتوں کو اوّل آخر کاٹ ٹکر غلط طریق پیش کرنے سے مولانا موصوف کے خلاف غلط فہمی پھیلانا ہے۔ جس سے ناظر موصوف کی دیانت کا پتہ چلتا ہے۔ ورنہ مولانا مرحوم کا مقصد آنحضرتﷺ کے کمالات نبوت میں اس امر کا واضح فرمانا ہے کہ آپ کی فضیلت محض آخری زمانہ میں پیدا ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ آخری زمانہ آپ کی وجہ سے تمام زمانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ مولانا موصوف کا یہ ہرگز منشاء نہیں ہے کہ حضورﷺ کے بعد مرزاغلام احمد جیسے جھوٹے مدعیان نبوت کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے۔ چنانچہ اسی کتاب (تحذیر الناس ص۱۰) پر خاتمیت زمانی کے منکر کو خود مولانا موصوف نے کافر فرمایا ہے۔ مرزاقادیانی نبی ہیں مگر جھوٹے علاوہ ازیں آپ کے ارشاد ’’وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (رواہ مسلم)‘‘ {قریب ہے میری امت میں سے تیس جھوٹے (دجال) پیدا ہوںگے۔ جن میں سے ہر ایک یہی گمان کرے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا۔} (روایت کیا اس کو مسلم نے) کے مطابق جھوٹے نبوت کے دعویدار ضرور پیدا ہوںگے۔ جیسا کہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، مختار، بیان ابن سمعان رافضی، یزید ابن انسیہ خارجی، محمد علی باب، بہاء اﷲ وغیرہ۔ جیسے متبنی (جھوٹے مدعیان نبوت) پیدا ہوئے اور اپنے جھوٹے دعوؤں کی دنیا میں سزا بھی پاگئے۔ اسی گروہ میں مرزاغلام احمد قادیانی بھی تھے۔ جن کے کاذب، دجال، اور کاذب نبی ہونے میں حدیث نبیﷺ کے مطابق کسی مسلمان کو نہ شک ہے نہ انکار۔ برادران اسلام اور مرزائیوں سے ایک درخواست آخر میں ہم امت مرزائیہ سے بادب درخواست کرتے ہیں کہ ہماری ان معروضات پر بغور توجہ فرماکر امت اسلامیہ میں داخل ہونے کی کوشش فرمائیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے باز آئیں۔ ورنہ ’’عدو مبین‘‘ تو درک اسفل ہی میں پہنچا کر دم لے گا۔ نیز برادران اسلام کی خدمت میں یہ گذارش ہے کہ اگر کوئی مرزائی آپ کے پاس مرزاقادیانی کی تبلیغ کے لئے آئے تو اس سے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تحریری طلب فرمائیں۔ تاکہ اسے پھر انکار کرنے کی گنجائش باقی نہ رہے اور اپنی تحریر کی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ ورنہ ’’واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً‘‘ کے مطابق اس سے علیحدگی اختیار کریں۔ اگر کسی ایک سوال میں بھی مرزاقادیانی جھوٹے ثابت ہوں تو ان کی اپنی مندرجہ ذیل تحریر کے مطابق ان کا کسی معاملہ میں بھی اعتبار نہ ہوگا۔ ’’ظاہر ہے جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)