احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم! ’’نحمدہ ونصلے علیٰ رسولہ الکریم وآلہ واصحابہ اجمعین‘‘ انسان ضعیف البنیان قدرۃً اپنے دو مختلف خیالات کا بندہ ہے۔ جس کو طریق سلوک میں توفیق اور خذلان سے تعبیر کرتے ہیں۔ یادوسرے لفظوں میں استقامت کہئے جو توفیق کا مفہوم ہے اور ذلت جو خذلان کا مقتضی ہے۔ دنیاوی کاروبار میں ان ہی دو مخالف اور متضاد مفہوموں کو پختگی اور تلون طبعی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بندوں کے لئے اصل برکات کی ابتداء توفیق ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اگر توفیق الٰہی نہ ہوتی تو کوئی کارخیر اس سے سرزد ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم کی تعلیم بھی ایسی ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ ’’وماتوفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘ پس مبارک وہ بندگان خدا ہیں۔ جن کو اس نے توفیق بخشی اور اس پر استقامت کی قوت بھی عنایت کی۔ ’’ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ‘‘ اسی طرح سے شقاوت اور ضلالت کی بنیاد بندوں کی طبیعت میں اس حکیم وعلیم وخبیر کی طرف سے اپنی حکمت بالغہ کے مناسب حال ودیعت ہوتی ہے۔ جس سے طرح طرح کے تخیلات لا یعنی مضر صراط مستقیم بندوں میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم سے دور جاگرتا ہے اور بجائے استقامت اور پختگی خیالات سلیمہ کے اس کے دل ودماغ میں تلون کا عجیب وغریب جذرومدر اور طوفان اٹھتا رہتا ہے۔ گاہے چنیں گاہے چناں بخور میں کبھی ڈوبتا ہے۔ کبھی نکلتا ہے جس سے اس کی استقامت بالکل جاتی رہتی ہے اور اپنے نفس امارہ کا اس وقت بندہ ہو جاتا ہے اور بعضے وقت اسے خود بھی اس کی خبر نہیں رہتی۔ ’’نعوذ باﷲ من شرور انفسنا ومن سیٔات اعمالنا من یہدہ اﷲ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ‘‘ اس وقت میرے سامنے ماسٹر مولوی عبدالمجید صاحب بے۔اے ساکن موضع حسینا ضلع مونگیر (جو میرے بڑے قدیم دوست مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور مجھ کو ان کے ساتھ اور ان کے بھائی مولوی عبدالحمید سلمہ کے ساتھی دلی ہمدردی اور محبت ہے) کے دونوں خطوط پیش نظر ہیں۔ ایک تو وہ خط مرقوم دہم اکتوبر کا جو کلکتہ سے بنام مولانا عصمت اﷲ صاحب مدرس سوپول کے لکھا ہے۔ دوسرا وہ خط ہے جو انہوں نے اپنے بھائی کو لکھا ہے اور چھپ کر مشتہر ہوچکا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ یہ خط ہمارے قدیم دوست مولوی عبدالماجد صاحب نے شائع کرایا ہے۔ بنظر خیرخواہی اہل اسلام مجھے نہایت ضروری معلوم ہوا کہ میں پہلا خط بھی شائع کروں تاکہ ماسٹر صاحب کی واقعی حالت معلوم کر کے دیکھنے والے فیصلہ کریں کہ بنظر