احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
نسبت دوسرے کے سہل بھی ہے اور مفید اور ضروری ہونے میں بھی دوسرے کام پر فوقیت رکھتا ہے اور جناب ممدوح نے ان دونوں خدمات کے نہایت سہل اور نتیجہ خیز طریقے بھی متعین کئے۔ جن میں تقریری اور تحریری دونوں قسم کی خدمات کا مفصل تذکرہ تھا۔ اگر ان تجویزوں پر عمل ہوتا تو تھوڑے ہی دنوں میں کیا سے کیا ہوجاتا۔ اس جلسہ میں تمام رنگون کے ائمہ مساجد اور بعض تاجران عالی ہمت بھی موجود تھے۔ سب نے اس تجویز پر لبیک کہی اور اس کے مفید اور نتیجہ بخش ہونے کا یقین ظاہر کیا۔ بعض ذی رتبہ تاجروں نے سچے جوش میں بڑی بڑی رقموں کے دینے کا وعدہ کیا۔ جن میں عارف معلم صاحب اور حاجی یوسف صاحب، داؤد صاحب خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ عارف معلم صاحب نے اپنا مکان دوسوروپیہ ماہوار کرایہ کا دفتر انجمن کے لئے اور پچاس روپیہ ماہوار مصارف کے لئے پیش کیا۔ ’’وعلی ہذا القیاس‘‘ مگر مولانا صاحب ممدوح کے تشریف لے جانے کے بعد یہ سب باتیں افسانۂ خواب ثابت ہوئیں۔ معلوم نہیں یہ کوتاہی کس کی طرف سے ہوئی۔ علماء کی طرف سے یا امراء کی طرف سے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت مولانا صاحب موصوف سے سورتی تاجروں کی درخواست تھی کہ آپ رنگون میں قیام کریں۔ مگر انہوں نے منظور نہ کیا۔ اگر وہ وہاں رہتے تو بلاشک زبانی اور کتابی تقریری وتحریری دونوں طرح کا درس تبلیغ اس پیمانہ پر جاری ہوجاتا جو تجویز ہوا تھا اور اس کام میں جس قدر روپیہ کی ضرورت ہوتی تاجران رنگون کی ادنیٰ توجہ سے بآسانی فراہم ہو جاتا اور اس کا نفع نہ صرف ملک برما، بلکہ سارے ہندوستان بلکہ تمام دنیا کو پہنچتا۔ مگر یہ خیال دل کے سمجھانے کے لئے چنداں مفید نہیں۔ اچھا اگر حضرت مولانا صاحب ممدوح دوسری مہمات وضروریات کے باعث ترک وطن کر کے رنگون میں مقیم نہ ہوسکے تو دوسرے علماء رنگون میں موجود تھے اور ہیں، ان سے یہ کام کیوں نہ لیاگیا؟ یا اب کیوں نہیں لیا جاتا؟ اے مسلمانوں! خدا کے لئے جاگو اور دین الٰہی کی حمایت کرو۔ جس پر آج چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کیا مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے کی کوشش بھی تم سے نہیں ہوسکتی؟ دین کا دعویٰ اور امت کی خبر لیتے نہیں چاہتے ہو تم سند اور امتحان دیتے نہیں اے مردان بکوشید وجامہ زناں نپوشید۔ وما علینا الا البلاغ! راقم: ایک جگر سوختہ مسلمان اور مسلمانوں کا ادنی خادم