معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ادب بھی یہی ہے کہ مانگ کر امیدوارِ قبولیت رہنا چاہیے) تو نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ، جہاد،تہجد سب آسان ہی نہیں بلکہ لذیذ تر ہوجاوے اور ہر گناہ کا چھوڑنا آسان تر ہوجاوے۔ اے خدا! ہم سب کو اسی معیار کی محبّت اپنی رحمت سے عطا فرما، آمین۔ایک حدیث میں یہ مضمون بھی ہے کہ اے خدا! مجھے اپنی محبت تمام اشیاء سے زیادہ عطا فرما، آمین۔ ان مضامینِ احادیثِ شریفہ سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی تھوڑی سی محبت پر قناعت کرنا سخت نادانی ہے اور دین کے لیے ناکافی ہے۔ محبت کا وہی معیار مطلوب ہے جو رسو لِ اکرم صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے خدائے پاک سے طلب فرمایا ہے، اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو محبتِ خداوندی کا یہ مقام حاصل تھا ہی، آپ تو یہ دعا مانگ کر دراصل ہمیں مانگنا سکھاگئے کہ ہماری اُمّت اسی طرح مانگا کرے۔ ہر گوشہ یکے مستی مستے و زبردستے واں ساقی سرمستے با ساغر شاہانہ ترجمہ وتشریح:اے مرشد تبریزی! آپ کے کمالاتِ عشق اور فیضانِ نسبت باطنی سے تو جس گوشے کی طرف دیکھتا ہوں کوئی سرمست و دیوانہ ذکر حق میں مشغول نظر آتا ہے اور پھر آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ساقی سرمست ساغر شاہانہ لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انتباہ:ساغر و پیمانہ، خمر و خمارو میخانہ و جام و مینا و سبو و خم و صراحی اور ساقی وغیرہ یہ تمام الفاظ تصوف میں جب استعمال ہوتے ہیں تو وہ اپنے لغوی معنیٰ میں باقی نہیں رہتے بلکہ منقول اصطلاحی ہوجاتے ہیں اور سب کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ عبادت و ذکر میں روح کو لذت عطا ہوتی ہے اور ایک خاص قسم کا سرور اور سکون و اطمینان ہوتا ہے۔ کبھی استغراق اور بے خودی سی بھی ہوجاتی ہے اور کبھی کوئی حال بھی غالب ہوجاتا ہے اور استحضارِ حق اور حضوریٔ حق سے روح ہر وقت باکیف رہتی ہے ۔ ان ہی حالات و کیفیات کو بیان کرنے کے لیے صوفیائے کرام الفاظ مذکورہ کو استعمال کرتے ہیں اور شیخ و مرشد چوں کہ وسیلہ ہے ان باطنی نعمتوں کا اس لیے اسے ساقی سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔ پس مشبہ او ر مشبہ بہ میں صرف اتنی سی جزئی مناسبت او ر قدر مشترک ہے اور فن میں اس طرح کا مجاز مرسل