معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
تا کے کنار گیری تو معشوق مردہ را جاں را کنار گیر کہ او را کنار نیست ترجمہ وتشریح: کب تک مرنے والوں پر مرے گا اورمردہ اجسام کو کب تک بغل گیر رکھے گا ؎ ارے یہ کیا ظلم کررہا ہے کہ مرنے والوں پہ مررہا ہے روح سے ہم آغوش ہو کہ روح کا کوئی کنارۂفنا نہیں ۔ مطلب یہ کہ جسم کی چمک دمک مت دیکھو،روح کا کمال دیکھو اگر روح عارف باﷲ ہے تو اس سے دل لگالواور اس سے فیض حاصل کرنے میں عار محسوس نہ کرو اگرچہ وہ غلام حبشی کیوں نہ ہو۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روح ِپاک پر حضرت بلال حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سیاہ جسم کے اندر خدا اور رسول پر فدا ہونے والی روح کا مقامِ رفیع ( بلند تر) جب منکشف ہوگیا تو آپ شرفائےقریش اور اتنے جلیل القدر اور مقرب بارگاہِ رسالت صحابی ہوتے ہوئے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایتوں کو ’’قَالَ سَیّدِیْ بِلَالٌ‘‘سے بیان فرماتے ۔ پس حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا سیاہ فام حبشی غلام (حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کو میرے سردار سے خطاب کرنا روحِ عارف سے محبت کرنے اور عشق ِابدان کے بے قدر اور بے حقیقت ہونے پر ایک اہم سبق دیتا ہے، اور اجسام کا منظر اس شعر سے ملاحظہ ہو ؎ کئی بار ہم نے دیکھا کہ جن کا مشیّن بدن تھا معطّر کفن تھا جو قبر ِ کہن ان کی اکھڑی تو دیکھا نہ عضوِ بدن تھا نہ تارِ کفن تھا نظؔیر اکبر آبادی کھا کے کیڑوں نے خاک کر ڈالا۔