معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل جس دل میں حق تعالیٰ کی محبت کاایک ذرۂدردِ دل داخل ہوتا ہے اس کے نور کے سامنے نورِشمس و قمر شرمسار و سرنگوں ہوتا ہے کیوں کہ اب شمس ساز و قمر ساز کا نور اس کے دل میں ہے ۔ ان ہی بندوں کو اہلِ دل بھی کہا جاتا ہے ؎ نشانِ دل بتایا مجھ کو تیرے دردِ پنہاں نے نہیں معلوم تھا پہلے کہ سینہ میں کہاں دل ہے اختؔر عشق است و عاشق ست کہ باقی ست تا ابد دل باجسد منہہ کہ بجز مستعار نیست ترجمہ و تشریح:عشقِ حق اور عاشقِ حق باقی ہے پس اے مخاطب!دل کو جسم اور صورت پر مت قربان کر یعنی حُسنِ مجاز سے اجتناب کر کہ یہ عارضی اور مستعار اور فانی ہے۔ فانی معشوق پر جو بنیاد پڑے گی وہ ایک دن ڈھا جائے گی اور محبوبِِ حقیقی کی ذاتِ پاک سے جو بنیاد وابستہ ہوگی وہ کبھی منہدم نہ ہوگی کیوں کہ وہ ایسے باقی ہیں کہ ان کے عاشق بھی باقی (باﷲ) ہوجاتے ہیں اور مجاز کا حال یہ ہے ؎ اس کے عارض کو لغت میں دیکھو کہیں مطلب نہ عارضی نکلے اختؔر مطلب یہ کہ شعراء او ر عشاقِ مجاز اپنے محبوبِ مجازی کے رخسار کو عارض سے جو خطاب کرتے ہیں تو یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ایک عنوان ہے کہ حسن و مجاز کا بودہ پن اور ا س کا عارضی ہونا ان کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ عارض ہی سے ظاہر فرمادیا اور یہ بےچارے بے خبر ہیں کہ اس نقارۂخلق میں نقارۂخدا بھی مضمر ہے۔