معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
اس شعر کی تشریح احقر کے چند اردو اشعار سے ملاحظہ ہو ؎ زمین سجدہ پہ ان کی نگاہ کا عالم برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر بن گئی عرش زمین سجدہ کس کی آنکھوں سے لہو برسا ہے آہ سے راز چھپایا نہ گیا منہ سے نکلی مرے مضطر ہوکر چشمِ نم سے جو چھلک جاتے ہیں ہیں فلک پر وہی اختر ہوکر مری مغفرت کا ساماں مری بندگی کی رفعت مرا نالۂ ندامت ترے سنگِ در پہ کرنا چند قطرے اگر ہوتے تو وہ چھپ بھی جاتے کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا تمام عمر ترے دردِ محبت نے مجھے کسی سے دل نہ لگانے دیا گلستاں میں روح را با ذات ِ حق آویختہ دردِ دل اندر دعا آمیختہ اختؔر عارفین اپنی روح کو حق تعالیٰ کے ساتھ آویزاں رکھے ہوئے اپنے دردِ دل کو دعامیں شامل کیے ہوئے ہیں ۔ یہ شعر بروزنِ مثنوی خواب میں موزوں ہوا ،جب احقر بیدار ہوا