معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
احقر ایک دینی تبلیغی سفر میں تھا اس وقت یہ شعر موزوں ہوا ؎ میں اپنے گھر سے ہوا ہوں جو اس طرح بے گھر خدا کے چاہنے والوں کو ڈھونڈتا ہوں میں جمال اس کا چھپائے گی کیا بہارِ چمن گلوں سے چھپ نہ سکی جس کی بوئے پیراہن اختر گویند از بالا کہ ایں خورشید نیست ماہیاں گویند در دریا کہ چہ غوغا ست ایں ترجمہ و تشریح:آسمان پر ستارے کہہ رہے ہیں کہ اجالا خورشید کا نہیں خورشید میں عکس نورِ حق متجلّی ہے اور سمندر میں مچھلیاں کہہ رہی ہیں کہ یہ موجوں کا شور و غل ان کا نہیں کسی اور کا کرشمہ ہے جو پنہاں ہے ؎ عشقِ من پیدا و معشوقم نہاں یارِ بیروں فتنۂ او در جہاں ترجمہ:ہمارا عشق (وضو ، نماز، روزہ ، زکوٰۃ ، حج ، جہاد) تو ظاہر ہے مگر وہ محبوب پوشیدہ ہے جس کی خاطر یہ اعمال محبت کے کیے جارہے ہیں۔ محبوب تو جہاں سے مخفی ہے لیکن ان کی خوشبوئے قرب نے عاشقوں کو دیوانہ کررکھا ہے ؎ بوئے آں دلبر چو پراں می شود ایں زبانہا جملہ حیراں می شود ترجمہ:ا س محبوبِ حقیقی کی خوشبوئے قرب جب عاشقوں کی ارواح کو محسوس ہوتی ہے تو اس لذت کو بیان کرنے کے لیے تمام لغات و الفاظ قاصر ہوجاتے ہیں اور تمام زبانیں عاجز ہوجاتی ہیں۔ ہمارے مرشد پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ’’عشق من پیدا‘‘والا شعر تہجد کے وقت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔