معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
۱) میں ہی تنہا اس میخانہ میں مست نہیں ہوں اس جام معرفت سے بہت سے اولیاء میری طرح سرشار و مست ہیں۔ ۲) اس بادۂمعرفت سے پاک بندوں نے ایک جرعہ پیا ہے اور اسی سے حضرت جنید و شبلی و عطار مست ہوئے ہیں۔ چوں کہ کمر بہ بستہ ام بہر چناں مہے بجد از پئے ہر ستارۂ ترک قمر چرا کنم ترجمہ وتشریح:جب میں نے کمر باندھ لی اس چاند کی تلاش کے لیے (یعنی وصول الی الحق کے لیے) تو پھر ہر ستارہ کی خاطر تلاش قمر کو کیوں ترک کروں۔ یعنی فانی حسینوں کے عارضی حسن کو دیکھ کر میں اگر حق تعالیٰ سے غافل ہوا تو میری مثال ایسی ہوگی کہ کوئی آفتاب کے عکس کو دیوار پر دیکھے اور دیوار کی روشنی پر فدا ہوجائے تو حیران اور غم زدہ کفِ افسوس ملتا ہوا اپنی رائیگاں عمر پر نوحہ خواں ہو ۔ پس دنیا کے ان حسینوں کا حسن دراصل ہمارے امتحان کے لیے حق تعالیٰ کی طرف سے ایک مستعار عکس ہے ، کچھ دن کے بعد چہرے کی چمک دمک خاک میں مل جاتی ہے اور شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔پس جو حکمِ خدا سے اپنی آنکھیں ان حسینوں سے بچائے گا مطابق وعدۂحدیث دل میں خوشی اور حلاوت ایمان کی پائے گا۔ اور جو ان کے حسن کو دیکھے گا وہ دشمن شیطان کے جال میں پھنس کر پریشان ہوگا ۔ کیوں کہ حدیث میں عورتوں کو شیطان کی رسیاں فرمایا ہے کہ شیطان اپنا شکار ان ہی عورتوں کے ذریعے کرتا ہے اور حسین لڑکے عورتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں کیوں کہ عورتوں سے تو کچھ آدمی کو بدنامی کا خطرہ ہوتا ہے اور لڑکوں سے بے خوف ملاقات آسان ہوتی ہے ۔ آہ! کتنے لوگ عشقِ مجازی کے عذاب میں مبتلا ہوکر اپنے اوپر سکون و اطمینان اور آرام والی نیند کو حرام کرچکے ہیں، حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں، آمین۔ احقر کا شعر ان کے عارضی ہونے پر ملاحظہ ہو ؎