معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
اور ان نشانیوں کو دیکھیے جو عشقِ پنہاں سے میرے چہرے پر ہویدا ہیں ؎ ان کی جھلک بھی ہے مری چشمِ پُر آب میں جو نکلی آہیں تو حور بن کر جو نکلے آنسو تو بن کے گوہر یہ کون بیٹھا ہے دل کے اندر یہ کون چشم پُر آب میں ہے بسوزم پردۂ ہفت آسماں را اگر از آہِ دل دودے بدارم ترجمہ وتشریح:جس وقت حق تعالیٰ کییاد میں دل سے آہ نکلتی ہے تو اس آہِ سوزاں کے دھواں سے (جو سوختہ جانی کے سبب نکلتا ہے) میں ہفت آسمان کو جلا دیتا ہوں ۔ یعنی آسمان کے حجابات میری آنکھوں سے (بوجہ غایتِ قرب و انکشاف تجلیاتِ خاصہ) دور ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت سالک بزبانِ حال یہ مصرعہ پڑھتا ہے ؎ مجھے تو یہ جہاں بے آسماں معلوم ہوتا ہے خزاں گر باغ و بستاں را بسوزد بہ خنداند جہان نو بہارم ترجمہ وتشریح:اگر یہ موسمِ خزاں باغات و بستاں و چمن کو جلادیتا ہے تو میرے باطن کی بہار (قرب کا فیض) ایک جہانِ نو کو خندہ کرتا ہے۔ یعنی اہل اﷲ کو جو قرب حق تعالیٰ کا عطا ہوتا ہے وہ ان کی زندگی کو اس قدر پُر لطف کردیتا ہے کہ ان کے پاس جو بھی بیٹھتا ہے اگر ہزاروں غم رکھتا ہوگا تو سکون اور اطمینان کی دولت لے کر اٹھتا ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل اﷲ کے قلوب میں جو چین اور سکون اور اطمینان کی دولت ہوتی ہے سلاطینِ دنیا اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ یہ نعمت تو اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھانے سے ملتی ہے، جنگ اور تلواروں سے نہیں مل سکتی۔