معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
نسبت اور قوی روحانی اور قلبی رابطے کے ساتھ نظر ڈالتے ہیں جس کا نور ان کی نظر میں توجہ الی اﷲ کا مقام مرتبۂ اولیٰ میں رکھتا ہے اور یہ وجدانی نعمت استدلالِ عقلی سے محسوس نہیں ہوتی بلکہ اہل اﷲ کی صحبت میں کچھ مدت مجاہدات اور ذکر و فکر کے بعد میسر ہوتی ہے۔حکایت علامہ امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ نے اولیا کے باطنی مقامات و اصول کو سمجھنے کے لیے کتبِ تصوف کا مطالعہ کیا ۔ کچھ تشفّی اور تسلّی نہ ہوئی پھر قلب میں وارد ہوا کہ اولیاء کے مقامات کو پہچاننا مشکل کام ہے جب تک روح کو مقامِ ولایت کی کرسی پر نہ بٹھادیا جاوے (وزارتِ عظمیٰ کا نشہ اور لطف جب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کرسی پر کسی کو بٹھادیا جاوے) پس جس طرح غیر نبی مقامِ نبوت کے قرب کا عقل سے ادراک نہیں کرسکتا اسی طرح غیر ولی مقامِ ولایت کو سمجھ نہیں سکتا ۔ ا س کے بعد پھر تصوف میں قدم رکھا اور اکابر اولیاء سے ہوئے۔اے خدا! ہمیں بھی ان بزرگوں کے حصوں سے حصہ عطا فرما، آمین۔ آپ کی عطا کے لیے ہماری نااہلیت مانع نہیں ہوسکتی بلکہ خود اہلیت آپ کی عطا کی محتاج ہے۔حکایت ایک فقیر کو اچانک بادشاہ بنادیا گیا۔ بادشاہ کے انتقال ہوتے ہی مجلسِ وزرا میں یہ طے ہوا کہ جو شاہی محل کے دروازے سے صبح گزرے گا اسی کو اس کرسی پر بٹھادیا جائے گا۔پس حکمِ خداسےاورعطائےخداوندی سےایک فقیرنےشاہی دروازے پر صدائے سوال لگائی اورفوراً وزرا نے اس کو پکڑ کر غسل دے کر شاہی لباس فاخرہ پہنا کر ایوانِ شاہی میں شاہی اجلاس میں بٹھا دیا ۔ اس نے صحیح صحیح فیصلے کیے اور جب اجلاس ختم ہوا تو اس نے دو وزیروں کو حکم دیا کہ آئیں اور بغل میں ہاتھ لگا کر سابق شاہ کی طرح مجھے اٹھائیں۔ وزراء حیران تھے کہ اس بھک منگے کو یہ شاہی آداب کس نے سکھادیے ، باادب سوال کیا کہ حضور! اگر اجازت ہو تو ایک سوال کروں ۔ بعد اجازت عرض کیا کہ