معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
کروں یعنی عاشقانِ حق اوراہلِ نسبت و حاملان درد آتشِ پنہاں کی تلاش میں پھرتا ہوں کہ ان سے حق تعالیٰ کی محبت کا کوئی ذرہ درد کا حاصل ہو۔ نمی دانی کہ سیمرغم کہ گردِ قاف می گردم نمی دانی کہ مخمورم کہ بر خمار می گردم ترجمہ وتشریح:تو نہیں جانتا کہ میں بوجہ قوی نسبت مع اﷲ رکھنے کے روحانی چڑیوں کی جنسِ اعلیٰ سیمرغ سے ہوں۔ نسبت مع اﷲ چوں کہ کُلی مشکک ہے جس کے افراد ضعف اور قوت کے اعتبارسے متفاوت المراتب ہوتے ہیں پس قوی النسبت کو سیمرغ سے تشبیہ دی کہ صنف طیور میں سب سے اعلیٰ جنس شمار ہوتا ہے اور اس کا نشیمن بقول مشہور کوہِ قاف ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارا نشیمن بھی عالمِ لاہوت ہے۔ اور اے مخاطب! تو نہیں جانتا کہ میں مست ہوں پس مستانِ حق و عاشقانِ حق کے گرد پھرتا ہوں۔ بہ ہر نقشے کہ پیش آید درو نقاش می بینم برائے عشق لیکے واں کہ مجنوں دار می گردم ترجمہ وتشریح:جو نقش اور جو صورت میرے سامنے آتی ہے میں نقاش کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں ؎ چہ باشد آں نگارے خود کہ بندد ایں نگار ہا یعنی مصنوع سے صانع اور مخلوق سے خالق پر استدلالی اور استحضاری حالت میں مشغول ہوجاتا ہوں لیکن یہاں بھی مخلص ہوں یعنی دنیوی اغراض کے لیے یہ نہیں ہوتا بلکہ اس کیفیت پر مجھے عشقِ صانع اور عشقِ خالق مجبور کرتا ہے۔ اولیائے کرام اور عارفین کے دو مقام ہوتے ہیں: ۱) ایک وہ جو مخلوق پرنظر اوّلاً ڈالتے ہیں پھر ثانیاً مشاہدۂ صفاتِ خالق کرتے ہیں۔ ۲) دوسرے وہ عارفین قوی النسبت ہیں جو اوّلاً خالق پر نظر ڈالتے ہیں ثانیاً مخلوق پر نظر ڈالتے ہیں ۔ یعنی مخلوقات پر جب نظر ڈالتے ہیں تو اپنے رب کے ساتھ اس قوی