معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ترجمہ وتشریح:کبھی تو آفتاب کو اپنے نورِ باطن سے شرمسار کرتا ہوں اور کبھی باطنی نسبت مع اﷲ کے دُر یکتا سے زمین پر دریائے پُر دُر کو نادم کرتا ہوں ۔ اپنے قلب کے اندر فلکِ تاباں از آفتابِ حق رکھتا ہوں اور دل کے باہر زمین رکھتا ہوں۔مراد اس سے تعلّقِ خاص اور معیتِ خاصہ ہے جو انبیاء اور اولیاء کے ساتھ مختص ہے۔ پس اہل ظاہر کو ظاہری الفاظ پر معترض ہونا نادانی ہے ۔ حق تعالیٰ کی ذات مکان سے اور زمان سے پاک ہے۔ صوفیا کے الفاظ کو اصطلاحِ تصوف سے سمجھنا چاہیے۔ اور یہ ہر فن کا قاعدہ ہے کہ اس کے مضامین کو اسی فن کی اصطلاح سے سمجھتے ہیں ۔ مثلاً شریعت میں صلوٰۃ کا مفہوم شارع علیہ السلام کی اصطلاح میں سمجھا جاوے گا نہ کہ لغوی مفہوم صرف دعا کو لیں گے۔ چرا پژمردہ باشم کہ بشگفت ہر جزوم چرا خر بندہ باشم براقے زیر زیں باشم ترجمہ وتشریح:میں کس طرح افسردہ ہوسکتا ہوں جب کہ میرا ہر جز تعلق مع اﷲ کے فیض سے زندہ اور شگفتہ ہوگیا ہے اور گدھے کاغلام کیسے ہوسکتا ہوں جب کہ براقِ عشق پر میری زین ہے۔ (خربندہ: بندہ خر۔ اضافت مقلوبی ہے) شعاع آفتابم من اگر در خانہا گردم عقیق و لعل و درم من ولادت زاب وطیں دارم ترجمہ وتشریح:اگر میرا فیض سالکین کے قلوب میں منور ہورہا ہے تو کیا تعجب کہ آفتاب کی شعاعیں ہر گھرمیں داخل ہوتی ہیں پھر خالص آفتاب کا نور تو کیا کچھ قوی تر ہوگا۔ اور اگر میں پانی اور کیچڑ سے مولود ہوں تو یہ بات میری حقارت کا سبب نہیں ہے کیوں کہ اسی مٹی سے لعل اور عقیق اور موتی بھی پیدا ہوتے ہیں جو اپنی قیمت کے سبب سلاطین کے سروں پر بیٹھتے ہیں ۔ پس حق تعالیٰ اسی آب و گل سے دُرِّ نبوت اور دُرِّ ولایت پیدا فرماتے ہیں اور ان کے فضل کا تو عجیب عالم ہے ؎