معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ترجمہ وتشریح:ہماری روحوں کا تعلق عالمِ ارواح سے ہے اس فانی جہاں سے نہیں ہے۔ ہمارے جسم کی خاک البتہ اس جہانِ خاکی سے ہے لیکن روح چوں کہ یہاں سے نہیں ہے اوپر سے آئی ہے پس ہم عالمِ بالا کی طرف جاتے ہیں۔ یعنی ترقیات قربِ خدا کے لیے بے چینی ہماری عین فطرت کا تقاضا ہے۔کیوں کہ ہر شئے اپنے مرکز کی طرف جانا چاہتی ہے ؎ نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا ان ہی کا ان ہی کا ہوا جارہا ہوں لا الٰہ اے جاں رہ اﷲ ہست ما ہم از لا تا بہ الا می رویم ترجمہ وتشریح:اے میری جان! لا الٰہ یعنی قلب کو غیر اﷲ سے خالی کرنا ہی الا اللہ تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ غیر کی نفی سے محبوبِ حقیقی کا اثبات ہوتا ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر اس مقام کی خوب تشریح کرتا ہے ؎ دور باش افکار باطل دور باش اغیار دل سج رہا ہے شاہ خوباں کے لیے دربار دل حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر بھی جس پر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لاکھ روپیہ دینے کی تمنا ظاہر فرمائی تھی خوب ہے ؎ ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی خواجہ صاحب کا ایک اور شعر یاد آیا ؎ دل مرا ہوجائے اک میدان ھو تو ہی تو ہو تو ہی تو ہو تو ہی تو جس قدر لا الٰہ قوی ہوگا اسی قدر الا اللہقوی ہوگا یعنی قلب کا غیر اﷲ سے اور معاصی کی آلایش سے جس قدر تزکیہ ہوگا اور جس قدر اپنے نفس کی مع اس کے تقاضائے