معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سر زاہد نہیں یہ سر سر سودائی ہے حق تعالیٰ کی محبت کا درد انبیاء و اولیاء کو عطا ہوتا ہے اور دنیائے ناپائیدار پر کرگس اور مگس خصلت جانیں فدا ہوتی ہیں ؎ ترے غم کی طالب ہے پروانہ فطرت مگس کو مگر یہ کہاں راس آئے عجب درد میں ان کے لذت ہے اختؔر مبارک جسے ان کا غم ہاتھ آئے خدا رسیدہ د ل کی علامت کو احقر نے اس شعر میں بیان کیا ہے ؎ تمام عمر ترے دردِ محبت نے مجھے کسی سے دل نہ لگانے دیا گلستاں میں یہ اﷲ والوں کے مقامات ہیں احقر محض ناقل ہے۔ حق تعالیٰ ان کی برکتوں سے ہم کو بھی یہ درد عطا فرماویں، آمین۔ اور اﷲ والے تکالیف میں بھی خوش رہتے ہیں اور روزِ ازل کا وہ درد ان کے دل کو مست رکھتا ہے جو فطرتِ عشاق کو حق تعالیٰ نے بخشا تھا ۔ اس مضمون کو احقر نے یوں پیش کیا ہے ؎ وہی اک تیر لگا تھا جو ازل میں دل پر آج تک درد وہ رہ رہ کے کسک لیتا ہے صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسّم کی مثال جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے اور پھردردبھرے دل سےجو دعانکلتی ہےوہ کیا ہی پُرکیف ہوتی ہےاوربارگاہِ حق میں اس کی آہ کس طرح پیغام رسا ہوتی ہے ؎