معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ خواہشاتِ نفسانیہ کے خون کی شفقِ احمر سے دل کے آسمان پر حق تعالیٰ کے قرب کا آفتاب طلوع ہوتا ہے ؎ ہے شرط کسی اہلِ محبت کی توجہ ملتا نہیں ورنہ یہ محبت کا نگینہ گو عشق کا موجود ہے ہر دل میں دفینہ ملتا نہیں لیکن کبھی بے خون و پسینہ مانا کہ مصائب ہیں رہِ عشق میں اختؔر پر ان کے کرم سے جو اترتا ہے سکینہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ؎ رخِ زرینِ من منگر کہ پائے آہنیں دارم چہ مے دانی کہ در باطن چہ شاہے ہم نشیں دارم ترجمہ:اے مخاطب!میرے زرد چہرے کو مت دیکھ کہ میں آہنی پیر رکھتا ہوں تجھے کیا خبر کہ میں اپنے باطن میں کیسے ذی شان شہنشاہِ حقیقی کو ہم نشین رکھتا ہوں۔ حاصل یہ کہ اﷲ والوں کی ظاہری شکستہ حالی کو نہ دیکھو کہ ان کے اندر لعل و جواہرات نسبت مع اﷲ کے پوشیدہ ہیں۔ بہ ہیچ سیر نہ گردی چو معدۂ دوزخ مگر کے بر تو نہد پائے خالق جبار چناں کہ برسرِ دوزخ قدم نہد خالق ندا کند کہ شدم سیر ہیں قدم بردار ترجمہ وتشریح:انسان دنیا میں کبھی اپنی خواہشات کی تکمیل سے سیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ جہنم کا پیٹ نہیں بھرے گا اوروہ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ پکارتی رہے گی یعنی جب سارے