معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ہوگئی خشک چشمِ تر بہہ گیا ہو کے خونِ جگر رونے سے دل مرا مگر ہائے ابھی بھرا نہیں غالباً جگر کا شعر ہے ؎ رونے کا جب مزہ ہے کہ اے چشمِ خوں فشاں ہر بوند میں لہو کی تمنا دکھائی دے حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اے دریغا اشکِ من دریا بدے تا نثار دلبر زیبا شدے اے کاش! میرے آنسو دریا ہوتے کہ محبوبِ حقیقی پر وہ قربان ہوتے۔حکایت حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ درسِ بخاری کے لیے اپنے مدرسہ بیت العلوم پھولپور سے سرائے میر ہر روز اپنے ذاتی یکہ سے تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ احقر ساتھ ہوتا تھا،پانچ میل کا راستہ تھا،ہر روز با وضو تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے۔ ایک دن اثنائے تلاوت ہی میں احقر سے فرمایا کہ حکیم اختر! جب دعا میں آنسو نکل آئیں تو سمجھ لو کہ دعا قبول ہوگئی۔ اب احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں، تین اردو اور دو فارسی کے ہیں ؎ ہوگئی عرشِ زمین سجدہ کس کی آنکھوں سے لہو ٹپکا ہے زمین سجدہ پہ ان کی نگاہ کا عالم برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر ایک قطرہ اگر ہوتا تو وہ چھپ بھی جاتا کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا