معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
صرف اپنی صفات کا ظہور فرماتے ہیں اور ذات پاک کو مخفی رکھتے ہیں تاکہ اپنے عاشقین کو عالمِ آخرت میں اپنے دیدار کی نعمت سے مسرور فرمائیں گے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ عشقِ من پیدا و معشوقم نہاں یارِ بیروں فتنۂ او در جہاں ہمارا عشق تو ظاہر ہے اور ہمارا محبوب پوشیدہ ہے یعنی ہماری محبت کے اعمال وضو، نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ سب ظاہر ہیں مگر یہ اعمال جن کے لیے ہورہے ہیں وہ کائنات کی نظر سے مخفی ہیں لیکن اس مخفی ہونے کے باوجود تمام کائنات میں حق تعالیٰ ہی کا تصرف اور ان ہی کی قدرت کارفرما ہے۔ آج کل اس کی آسان مثال یہ ہے کہ بجلی سے تمام کام ہورہے ہیں مگر بجلی نظر سے پوشیدہ ہے۔حکایت ہمارے شیخ مرشدنا مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ جب وضو کے لیے بوقتِ تہجد اٹھتے تھے تو اکثر یہی شعر گنگناتے ہوئے مستانہ وار پڑھا کرتے تھے ؎ عشقِ من پیدا و معشوقم نہاں یارِ بیروں فتنۂ او در جہاں اور اکثر یَارَبِّیْ کا نعرہ مارتے کبھییَارَبِّیْمعاف فرمادیجیے بھی کہتے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا کہ گویا حق تعالیٰ سے باتیں ہورہی ہیں اور حق تعالیٰشانہٗ کو نگاہِ بصیرت کے ساتھ ساتھ بصارت سے بھی گویادیکھ رہے ہیں۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملّت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ ہمارے مولوی عبدالغنی صاحب کو اﷲ کے ذکر نے مٹادیا ہے اور ذکر اﷲ چیز ہی ایسی ہے۔ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو اکثر تنہائی میں دیکھا کہ فضاء میں لفظ اسم ذات اﷲ لکھ رہے ہیں، یہ محبتِ الٰہیہ کا والہانہ رنگ تھا۔ واقعی محبت حق تعالیٰ کی اس قدر لذیذ ہے کہ امراء و سلاطین ہفت اقلیم کی