معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
ہوکر فرمایا کہ اگر میرے پاس ہوتا تو میں آپ کو بطورِ انعام ایک لاکھ روپیہ پیش کرتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا قلب اس نعمت سے مشرف تھا ؎ دل مرا ہوجائے اک میدان ھو تو ہی تو ہو تو ہی تو ہو تو ہی تو مجؔذوب اصطلاحِ تصوف میں قلب کو غیرِحق سے خالی کرنے کا نام تخلیہ ہے اور پھر انوارِ حق سے منور کرنے کا نام تحلیہ ہے۔ تحلیہ کے دو طریقے بزرگوں نے لکھے ہیں: ۱) دل کی ایک ایک بیماری کا علاج شیخ سے کرایا جائے۔ ۲) دل کے اندر عشقِ حق حاصل کیا جاوے جو سب غیر کو سوختہ کردیتا ہے مگر یہ کسی خدا کے عاشق بندے کی صحبت ہی سے ملتا ہے ۔پہلا طریقہ دیر طلب ہے دوسرا آسان اور کم وقت میں منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دی ہے کہ کسی جنگل کو صاف کرنا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:ایک تو یہ کہ ایک ایک درخت کو ختم کیا جاوے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادیں تمام جنگل مختصر مدت میں صاف ہوجاوے گا۔ پس یہی دوسرا طریقہ عشق ہے۔جب دل میں خدائے پاک کی محبت پیدا ہوجاتی ہے تو ہر حکم کوماننا اور عمل کرنا آسان ہی نہیں بلکہ لذیذ تر ہوجاتا ہے۔ چناں چہ دنیا میں ہر شخص رات دن اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے کہ جس سے محبت نہیں ہوتی اس کے لیے معمولی تکلیف و محنت بھی پہاڑ معلوم ہوتی ہے۔ اور جس سے محبت ہوتی ہے اس کے لیے بڑی سے بڑی مشقت آسان تر بلکہ لذیذ معلوم ہوتی ہے ۔ یہی راز ہے جو انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین اور اولیائے کرام رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین کی زندگی کی حیرت انگیز جانی اور مالی اور بدنی قربانیوں اور محنتوں میں پوشیدہ ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ اہلِ دنیا کے فانی محبوب نظر آتے ہیں اور وہ محبوب حقیقی