معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنۂ پاکاں زند سجدہ گہہ را ترکن از اشکِ رواں کہ خدایا وا ر ہا نم زیں گماں ترجمہ:جب حق تعالیٰ کسی کو رسوا کرنا چاہتے ہیں تو اس کی پردہ فاشی کے لیے اور پردہ دری کے لیے اس کے قلب میں پاک اور مقبول بندوں کے اوپر اعتراض کا داعیہ پیدا فرماتے ہیں اور اس کی یہ رسوائی اس کے سابقہ جرائم کے پاداش میں ہوتی ہے۔ پس اے مخاطب ! اگر تیرے اندر کبھی بدگمانی اﷲ والوں کی طرف سے آئے تو سجدہ میں گر کر رونا شروع کردے اور اپنے آنسوؤں سے سجدہ گاہ کو تر کردے اور دعا کر کہ اے خدا! اس گمان ِبد سے مجھے پاک فرما۔ احقر کا اپنا ایک شعر یاد آیا ؎ زمینِ سجدہ پہ ان کی نگاہ کا عالم برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر حق تعالیٰ کے راستے میں طعنہ و اعتراض و ملامت برداشت کرنا ہوتا ہے ۔حکایت ایک بزرگ ایک مرید کے ساتھ سفر کررہے تھے ۔ ایک معترض نے کہا: کیسا مکار ہے مرید کی زندگی تباہ کرتا ہے۔ مرید نے کہا: اس سے بدلہ لینا چاہیے ، بزرگ نے فرمایا کہ یہ راستہ خدا کا ہے اس میں تو یہی کانٹے برداشت کرنے ہوتے ہیں ، اگر تجھے منظور نہیں تو تُو اپنا راستہ لے اور مجھے چھوڑدے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے ؎ قدر مجذوب کی خاصانِ خدا سے پوچھو شہرۂ عام تو اک قسم کی رسوائی ہے احقر کا شعر ہے ؎