معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
میں اور مذکور میں بھی یہ تین حروف موجود ہیں۔ پس ذکر ذاکر کو مذکور سے ملادیتا ہے۔ کیا ہی عجیب بات فرمائی، ذکر واقعی عجیب چیز ہے،سب اصلاحات اس کی برکت سے ہوجاتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے نور پیدا ہوجاتا ہے اور جب دل میں نور آتا ہے تو پھر گناہوں کے اندھیروں سے وحشت ہونے لگتی ہے ؎ می گریزد ضدہا از ضدہا شب گریزد چو بر افروزد ضیا مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر شئے اپنے ضد سے بھاگتی ہے پس دن روشن ہوا رات کی اندھیری کیسے ٹھہر سکتی ہے ۔اور اگر احیاناً کوئی خطا ہوبھی جائے گی تو سخت پریشانی ہوگی۔ جس طرح روشنی میں رہنے والوں کے گھر کی بجلی چلی جانے سے وحشت ہوتی ہے اور پاور ہاؤس سے فون کے ذریعے فریاد رسی شروع کردیتے ہیں اسی طرح اﷲ اﷲ کرنے والوں سے اگر کبھی کوئی کوتاہی اور خطا صادر ہوتی ہے تو فوراً ان کو توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے اور حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے جو سرچشمۂ نور اور مرکزِ نور ہے گناہ کی ظلمت و اندھیرا دور ہونے اور دوبارہ نور عطا ہونے کی فریاد و گریہ وزاری شروع کردیتے ہیں ۔ اسی کو مولانا نے بیان فرمایا ہے ؎ بر دلِ سالک ہزاراں غم بود گر ز باغ دل خلالے کم بود سالک کے باغ دل سے اگر ایک تنکا بھی کم ہوتا ہے تو اس کے قلب پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں۔ احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ میرے دل کو روشنی دیتے نہیں شمس و قمر کائنات دل کے ہیں کچھ دوسرے شمس و قمر اے خدا تجھ سے ہی روشن ہیں ہمارے رات دن اے ہماری کائنات دل کے خورشید و قمر