معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ان کی دنیاوی نعمتوں سے تو میری آنکھیں اپنی عبادت سے ٹھنڈی فرما۔ اسی طرح سے خوف کا معیار بھی رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اور اس کا پتا آپ کی اس دعا سے ملتا ہے کہ اے خدا !اپنا خوف مجھے اتنا عطا فرمادیجیے جو تمام کائنات کی اشیاء سے زیادہ ہو ۔ ایک دعا میں یہ عنوان ہے کہ اے خدا !اپنے خوف سے مجھے اتنا حصہ عطا فرمادیجیے جو مجھے آپ کی نافرمانی سے روک دے۔ پس معلوم ہوا کہ محبت اور خوف کی مقدار ِمطلوبہ ضروریہ حاصل کرنا ضروری ہے ورنہ اعمالِ رضا پر عمل کی ہمت اور ناراضگی و غضب کے اعمال سے اجتناب کی توفیق مشکل ہے اور محبت و خوف کے یہ مدارج اور ان کی یہ مقدار اہلِ محبت و اہلِ خشیت کی صحبت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو (لیکن یہ ڈر کہاں سے حاصل ہوگا) کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کاملین کی صحبت میں رہ پڑو۔ اور صادقین اور متقین ایک ہی چیز ہیں، یہ کُلی متساوی ہے، ہر صادق متقی اور ہر متقی صادق ہے: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ؎ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ صادقین سے مراد مشایخ و بزرگانِ دین ہیں اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی آیتِ مذکورہ کی یہی تفسیر معلوم ہوتی ہے: لِکُلِّ شَیْءٍ مَعْدِنٌ وَمَعْدِنُ التَّقْوٰی قُلُوْبُ الْعَارِفِیْنَ ؎ ہر شئے کے لیے معدن ہے اور تقویٰ کا معدن عارفین کے قلوب ہیں۔ ہمارے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر چیز اپنے خزانے اور کانوں سے ملتی ہے سونا سونے کی کان سے، چاندی چاندی کی کان سے ،کوئلہ کوئلہ کی کان سے، اسی طرح امرود امرود والوں سے، مٹھائی مٹھائی والوں سے، کپڑا کپڑے والوں سے ۔ پس اﷲ بھی اﷲ والوں سے ملتا ہے۔ ------------------------------