حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اورپوری ملت کے لئے باعث نازش وافتخار ہے ضائع ہونے سے بچ گئی۔ اس حلقہ اورنسل پر جو اس سلسلہ سے عقیدت ومحبت رکھتی ہے، مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی ؒ کابہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ’’تذکرۃ الرشید‘‘ اور ’’تذکرۃ الخلیل‘‘ لکھ کر واقعات وحالات کا بہت بڑا سرمایہ اور معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ کردیا، تقریبا نصف صدی سے اہل تعلق وعقیدت ان دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھار ہے ہیں،ہزاروں بندگان خدا نے ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت اورروح کی بالیدگی حاصل کی ، اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو بہترین جزا عطافرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، لیکن کسی کام کو بھی مختتم اور حرف آخر نہیں کہاجاسکتا، ابھی اس میں اضافہ اور تکمیل کی گنجائش باقی تھی،بڑی خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ابھی حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہ ، رہنمائی امداد اور نشاندہی کے لئے موجود ہیں ان سے زیادہ نہ کسی کو اس سلسلہ میں معلومات ہیں اور نہ ان سے زیادہ کسی کو اس کام کی تکمیل سے مسرت اور فرحت ہوسکتی ہے انہوں نے عزیز موصوف کو نہ صرف اس کام پر مامور فرمایا بلکہ ان کی پوری سرپرستی کی جس وقت سے یہ کام شروع کیا گیا ان کی ساری توجہ اس پر مرکوز ہوگئی اور ان کو اس کی تکمیل کا ایسا انتظار واشتیاق رہنے لگا جیسے کسی عاشق کو کسی محبوب کی آمد کا انتظار ہوتاہے، اس سے ان کے اس قلبی تعلق کا کچھ اندازہ ہوتاہے جو ان کو اپنے شیخ سے ہے اور جس کی مثال اس زمانہ میںملنی مشکل ہے، کتاب کے مسودہ کو انہوں نے حرف بحرف سنا، مدینہ طیبہ کے مبارک ماحول میں اور مسجد نبوی علی صاحبہا الف الف صلاۃ وتحیۃ کے زیر سایہ انہوں نے اپنی انتہائی مصروفیت میں اس کے لئے وقت نکالا ، فروگذاشتوں کی تصحیح کی، مآخذ کی نشاندہی فرمائی، جہاں تفصیل کی ضرورت سمجھی تفصیل اورجہاں توضیح کی ضرورت سمجھی وہاں توضیح سے کام لیا، پھر جب کتاب کا کچھ حصہ چھپ کر تیار ہوا، تو ۱۳۹۶ھ کے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں سہارنپور میں سینکڑوں معتکفین کی موجودگی میں دن رات کی مبارک ساعتوں میں اس کو بڑے ذوق وشوق کے ساتھ پڑھواکر سنا، ان مجالس کا کیف حاضرین کو عرصہ دراز تک نہ بھولے گا، اور ان صفحات کے ختم ہوجانے پر جو قلق حضرت کو اور حاضرین کو ہوا وہ بھی عرصہ تک یاد رہے گا۔ ادھر مصنف عزیز کاانہماک واستغراق بھی دیکھنے کے قابل تھا، اور قرب ویکجائی کی وجہ سے ان سطور کے راقم کو اس کا پورا موقعہ ملا، انہوں نے یہ کام ایک وظیفہ سمجھ کر شروع کیا اور انجام دیا، بلامبالغہ کہاجاسکتاہے( اور یہ واقعہ بھی ہے) کہ سونے میں بھی ان کو اسی کے خواب نظرآتے تھے اور اس کے مضامین،ترمیمات اوراضافہ کا القاء ہوتاتھا۔ مجھے بار بار اس کا اندیشہ پیداہوا کہ اس انہماک کااثر ان کی صحت، کم سے کم نظر پر جو بہت کمزور ہوگئی ہے کہیں نہ پڑے، لیکن ان کو اس کی طرف بالکل توجہ نہ تھی، کسی تصنیفی کام کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ یکسر عیوب اورخامیوں سے