حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الخلیل ۱۷۳تا۱۷۵) حضرت گنگوہی کا یہ مکتوب پہنچا تو ان دونوں حضرات کو ایسا سکون واطمینان نصیب ہوا کہ جیسے کسی نے زخم پر مرہم رکھ دیا ہو اور یہ خط ہرچہ از محبوب رسد شیریں بود کا مصداق بن گیا اور یہ دونوں درس وتدریس کے کام میں ہمہ تن مشغول رہے اور اپنے شیخ ومرشد کے حکم پر انتظامی امور میں کسی امر سے مطلب نہیں رکھا۔مدرسہ میں انتظامی امور : حضرت گنگوہی نے اپنے مکتوب کے آخر میں جو یہ فرمایاتھا:’’انجام خیر ہی خیراور صائب ودائم رہے گا‘‘ اس کو اللہ نے سچ کر دکھایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ شورش جو اکابر مدرسہ کے اختلاف سے عوام کی شورش پھر فتنہ پروروں کے فتنہ تک پہنچ چکی تھی وہ پانی کا ایک بلبلہ ثابت ہوئی اور شعبان ۱۳۱۰ھ میں دارالعلوم کے مہتمم منشی فضل حق صاحب بنائے گئے اور ۱۳۱۱ھ کے آخر میں مولانا محمد منیر نانوتوی جو آپ کے مشفق استاذ اور قریبی رشتے کے ماموں، حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی کے چھوٹے بھائی تھے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بنائے گئے اور وہ دوسال مہتمم رہے۔ تبدیلی کی وجہ یہ پیش آئی کہ منشی فضل حق صاحب کے اہتمام کے دور میں یہ فتنہ پورے شباب پر تھا اور منشی فضل حق صاحب کی آڑ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سرپرست مدرسہ اور آپ کی وجہ سے شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے خلاف ایک ہنگامہ برپا کردیاگیا حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے عزم وہمت سے کام لیا اور قلندرانہ شان دکھلائی اور باوجود اس خطرے کے کہ منشی فضل حق صاحب سے استعفیٰ لینے پر مدرسہ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ تھا، آپ نے منشی صاحب سے استعفیٰ طلب لیا، منشی صاحب نے استعفیٰ تو دے دیا مگر مخالفین نے حضرت گنگوہی کے خلاف خطوط لکھے، اشتہار چھپوائے اور سخت الفاظ استعمال کئے، مگر حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ ان کی خاک اڑانے سے کچھ نہیں ہونے کا اور ان دونوں سے فرمایا، جب تک تمہارا تعلق ہے اس وقت تم اپنے فرض منصبی کو نہایت اطمینان سے پورا کرتے رہو اوراس میں غفلت نہ ہونے پائے۔ جب مخالفین عاجز آگئے تو انہوں نے گورنمنٹ کو یہ درخواست دی کہ یہ مدرسہ نہایت خراب اصول پر چل رہاہے ان لوگوں کے خیالات بغاوت آمیز ہیں اسی واسطے مدرسہ میں ولایتی کثرت سے رکھے گئے اور ایک زمانہ میں مولوی رشید احمد نے تھانہ بھون کی بغاوت میں شرکت کی تھی، یہ ہمیشہ کے باغی ہیں ان کی مسل نکالی جاوے بہتر تو یہ ہے کہ اس مدرسہ کو گورنمنٹ اپنے ہاتھوں میں لے لے اور اگر یہ منظور نہ ہو تو حاجی محمد عابد اس کے سرپرست مقرر کئے جائیں جن کو جشن جبلی میں شمس العلماء کاخطاب دیا گیا۔