حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انکساری اور اہل تعلق سے محبت وتعلق اور مروت بہ تھی، باوجود صاحبزادے کی بیماری اور تکلیف کے ساتھیوں کے اصرار پرجلد واپسی کافیصلہ کرلیا حضرت مولانا کاحضرت رائپوری بہت خیال کرتے تھے۔حضرت مولانا کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت رائپوری اپنے صاحبزادے کی تکلیف پر اپنے ساتھیوں کے اصرار کو ترجیح دے رہے ہیں اور واپسی کا فیصلہ کررہے ہیں تو نہایت بے تکلفی کے ساتھ فرمایا: ’’آپ مکہ میں ہیں جنگل میں نہیں اس لیے اس حالت میں عبدالرشید کسی طرح سفر کے قابل نہیں، آپ کیوں عجلت کررہے ہیں؟‘‘ حضرت رائپوری نے فرمایا: ’’حضرت کیاکروں رفقاء کو اپنی خاطر تکلیف میں نہیں ڈالا جاتا کہ ان کو عجلت ہے اور خرچ کم ہوچلا و میری وجہ سے رکے تو ان کا مکہ میں بادل نخواستہ وحشت کے ساتھ قیام ان کے لیے موجب وبال ہوجائیگا۔‘‘ حضرت مولانا نے پوری صفائی سے جواب دیا: ’’ان کے روکنے کی ضرورت نہیں کہہ دو جس کا دل چاہے جائے میں اس وقت عبدالرشید کی شدت علالت کے سبب سفر نہیں کرسکتا، آخر رفقاء کی مراعات آپ پر ضروری ہے تو عبدالرشید کی مراعات ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ رفیق سفر بھی ہے اور بیٹا ہے جس کے حقوق سب پر مقدم ہیں۔‘‘ حضرت رائپوری اس جواب پرخاموش ہوگئے لیکن مروت کی وجہ سے باقی ساتھیوں سے عذر نہ کرسکے اور مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی کے ذریعہ حضرت مولانا سے اجازت حاصل کرلی اور رفقاء کے ہمراہ وطن واپس ہوئے لیکن راستہ میں ہی عدن پہنچتے پہنچتے ان کے بیمار صاحبزادے مولوی عبدالرشیدصاحب راستہ کی تکلیف برداشت نہ کرسکے اور انتقال کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔حضرت مولانا کے صاحبزادے حافظ ابراہیم کاانتقال : حضرت مولانا کی اولاد نرینہ میں صرف حافظ ابراہیم تھے جو ۱۲۹۱ھ میںپیدا ہوئے، اول قرآن شریف حفظ کیا اور اپنے والد ماجد کے ساتھ بریلی اور دیوبند رہ کر عربی شروع کی اور مشکوٰۃ وشرح وقایہ تک تعلیم حاصل کی اور نقشہ نویسی کاکام سیکھا اور فاضل کامیں مشاہرہ پر محکمہ نہر میں ملازم ہوگئے اورپھر داروغہ نہر ہوکر فیروزپورگئے اور مشاہرہ ملنے لگا، ۱۳۱۴ھ میں چچاز اد بہن صفیہ خاتون سے شادی ہوئی مگر اولاد نہ ہوئی تو ۱۳۲۹ھ میں دوسرا نکاح کیا مگر ۱۳۳۰ھ میں خود سخت علیل ہوگئے اور ۴۰ سال کی عمر میں انتقال کیا، اکلوتے صاحبزادے کے انتقال کا حضرت مولانا پر جو اثر پڑا ہوگا وہ ظاہر ہے مگر آپ صبرواستقلال کے پہاڑ تھے، اتنے سخت موقع پر بھی آپ نے سنت نبوی ﷺ کی پیروی کی اور وہ کیا جو حضور ﷺ نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کے انتقال پر کیاتھا۔ مسلم کی روایت ہے کہ جب حضور ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا وصال ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تدمع العین ویحزن القلب ولانقول مایسخط الرب وانا بک یا ابراہیم لمحزونون‘‘۔مسجد کی تعمیر اور آپ کا ذوق وانہماک :