حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مظاہر دوم:۱۳) ادھر حضرت رائپوری نے آپ کو یہ لکھا اور دوسری طرف اہل مدرسہ کی طرف سے تنخواہ لینے پر اصرار کرایا اہل مدرسہ کی خواہش اور اصرار کے باوجود آپ کے پائے ثبات کو لغزش آئی نہ استغناء اور قناعت میں کوئی فرق آیا آپ نے اہل مدرسہ کو جواب دیا: ’’مدرسہ کا روپیہ چندہ کاہے اور خدا کامال ہے، جس کے ہم لوگ صرف امین اور خازن ہیں اور بے جا تصرف یا مراعات کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے اور میں خود خوب سمجھتا ہوں کہ پچاس روپیہ کے قابل درس نہیں دے سکتا لہٰذا تنخواہ نہ لوںگا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل)کارنظامت : حضرت رائپوری اور اہل مدرسہ کے نزدیک مدرسہ کے لئے آپ کا وجود ضروری تھا اس لئے حضرت رائپوری نے اکابر مدرسہ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ حضرت مولانا پر سے تدریس کی ذمہ داری اٹھالی جائے اور کار نظامت آپ کے سپرد کیاجائے کہ بلا تعیین وقت و دن آپ یہ خدمت انجام دیں اور درس کی وجہ سے اوقات کی جو پابندی کرنی پڑتی ہے اورجس پابندی کی آپ کی صحت اور عمر متحمل نہیں ہے اس سے بھی آزادی مل جائے اور کار نظامت کا معاوضہ مشاہرے کے طورپر خدمت میں پیش کیاجاتارہے، حضرت رائپوری کی یہ تجویز اراکین مدرسہ نے بالاتفاق منظور کرلی اور حضرت مولانا سے درخواست کی کہ: ’’جناب والا کی تنخواہ صرف کار نظامت کی بناء پر طے ہوئی ہے درس وتدریس کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ اب تنخواہ قبول فرمالیجئے کہ اس میں عنداللہ مسولیت کا کوئی سوال نہیں ہے اور اپنی خواہش کے مطابق اگر ایک آدھ سبق جناب اپنے پاس رکھنا چاہیں تو ضرور رکھ لیں جب تک قیام رہے درس دیں اور جب سفر میں تشریف لے جائیں تو وہ سبق صدر مدرس پڑھائے۔‘‘(تاریخ مظاہر دوم: ۳) آپ کو اس تجویز پر بھی انشراح قلب نہ ہوسکا لیکن بڑی ردوقدح کے بعد آپ نے تنخواہ لینا قبول کرلیا اور کار نظامت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اب آپ صرف مدرس نہ تھے بلکہ مدرسہ کے ناظم بھی تھے، مدرسہ کا تعمیری، تعلیمی اور انتظامی نظام آپ کے ہاتھوں میں تھا، درس وتدریس کا انتظام ،مدرسین کی کمی وبیشی ،تعمیر وترقی کے سارے شعبے آپ ہی کی رائے پر چلنے لگے اور مدرسہ کوپہلے سے زیادہ ترقی ہوئی۔ایک نیا اور مبارک تقرر : مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی کے بعد مدرسہ میں ایک ایسا تعلیمی خلا پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مدرسہ کو نقصان پہنچ رہا تھا اورآپ(مولاناخلیل احمد) کے عہدئہ نظامت قبول کرنے کے بعد اس خلا میں اور وسعت پیدا ہوگئی ، اس لئے ایک ایسے استاذ کی ضرورت ہوئی جو اس خلا کو بڑی حدتک پرکرسکے اور جوان دونوں اکابر مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی اور آپ کا صحیح جانشین اور