حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ضروری،مولوی صاحب نے غلطی کا اقرار اور آئندہ کے لئے احتیاط کا عہد کیا تو آپ مسرور ہوئے تو پھر محبت کے لہجہ میں فرمایا بھائی آج کل طلبہ کو مارنے کا زمانہ نہیں ہے کیونکہ زمانہ فساد کا ہے۔قلوب میں تکبر بھرا ہوا ہے ،بعض نادان مقابلہ سے پیش آنے لگتے ہیں اس سے تو بالکل ہی احتیاط کرو اور اگر کوئی زیادہ بک بک لگاوے اس کو مہتمم سے اطلاع کرکے درس سے اٹھا دو دراس سے زیادہ سزا کی ضرورت نہیں۔(تذکرۃ الخلیل:۲۲۵)درس و تدریس میں آپ کا نظریہ اور معمول : حضرت مولانا کا درس و تدریس میں ایک نظریہ تھا وہ پورے سال یکساں طور پر پڑھنے کے قائل تھے بہت سے مدرسین کا جو یہ قائدہ ہے کہ شروع سال میں طویل طویل بحث کرتے اور آخر میں کتاب پوری کرنے کی خاطر ورق گردانی کر کے اور مختصر سے مختصر بحث کر کے کورس پورا کرادیتے ہیں ایسے قائدے اور طرز تعلیم کے آپ مخالف تھے فرماتے بھی تھے اور خود اپنے دور درس و تدریس میں اس توازن اور یکسانیت پر عمل بھی کیا،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب زید مجدہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’میرے حضرت اس کے شدید مخالف تھے کہ ابتداء میں لمبی تقریریں کی جائیں اور آخر میں رمضانی حافظ کی طرح ورق گردانی کی جائے ،اس سلسلہ میں حضرت قدس سرہ نے اکابر مدرسین کو مجمع میں ڈانٹا ہے کہ مجھے یہ طرز بہت ناپسند ہے میرے حضرت قدس سرہ کے یہاں جب تک ترمذی شریف بخاری شریف مستقل ہوتی رہی اور صبح کے پہلے دو گھنٹوں میں سبق تھا ماہ صفر کے کسی حصہ میں ترمذی ختم ہوجاتی تھی اس کے ختم ہونے کے بعد اس کی جگہ بخاری شریف شروع ہوجاتی تھی ،اول کے چندایام چھوڑنے کے بعد حضرت قدس سرہ جب سبق شروع کراتے تو جہاں سبق کے شروع ہونے کا نشان رکھا ہوا ہوتا تھا سبق کے شروع میں نشان کو نکال کر اور پانچ ورق گن کر پانچ ورق کے بعد وہ نشان رکھ دیتے تھے مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی اور بارہا اس کو بڑے غور سے دیکھا کہ دوسرے گھنٹے کے ختم پر وہ پانچ ورق بھی ختم ہوجاتے نہ تو کبھی گھنٹہ بجتا نہ کبھی ورق بچتا میں بہت کثرت سے اس منظر کو غور کرتا رہااس میں احکام کے ابواب بھی آتے تھے اور رقاق و آداب کے بھی آتے تھے تقریر بھی کم و بیش ہوتی تھی لیکن ان پانچ ورقوں میں تخلف نہیں ہوتا تھا۔(آپ بیتی ۶/۲۲تا۲۳) حضرت مولانا تعلیم و تدریس کا کام کس طرح کرتے تھے اور طلباء کے سامنے تعلیم کا کیا طریقہ استعمال فرماتے تھے آپ کے تلمیذ رشید حضرت شیخ الحدیث زید مجدہ اپنا مشاہدہ اس طرح پیش کرتے ہیں: ’’آپ کی تقریر مختصر اور جامع ہوتی تھی صاف اور عام فہم لفظوں میں عبارت کا ترجمہ کرتے اور مطلب سمجھاتے اور آواز زیادہ اونچی نہ تھی مگر پھر بھی ۵۰۔۔۔۔۶۰ طلباء کے دائرہ تک باآسانی پہونچتی تھی مفہوم عبارت سمجھانے کے بعد آپ طلبہ کو شبہہ اور اعتراض کا موقع دیتے اور پھر مسکرا کر اس کا جواب دیا کرتے تھے بات کرنے میں آپ کے ذہن سے پھول جھڑتے اور تقریر گویا موتیوں کی لڑی ہوتی تھی اخیر زمانہ عمر میں آپ کی آواز مرتعش ہوگئی تھی مگر تسلسل و حلاوت وہی تھا جو جوانی کے زمانہ میں تھا بڑے درجہ کی پندرہ سولہ ضخیم کتابوں کا ختم سال سے قبل تمام کرادینا آپ کے لئے معمولی بات تھی کامل چھ سات گھنٹے درس دینا اور دماغ و زبان سے کام لئے جانا