حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ماتحتی سے نکال لیا اور استفیٰ نامنظور کرکے آپ کو اسی منصبت اور کام پر بحال رکھا۔ سیدچراغ علی شاہ کو وزیر اعظم سے گفتگو اور آپ کا اپنے منصب پر بحال رہنا معلوم ہوا تو وہ آپ کے اور زیادہ درپے آزار اور جان کے دشمن بن گئے۔دل خراش حادثے : حضرت مولانا نے بھاولپور میں جو مدت گزاری اس مدت میں آپ پر کئی ذاتی اور خاندانی حادثے گزرے جن میں سب سے پہلا ۱۲۹۵ھ میں اہلیہ محترمہ کے انتقال کا حادثہ تھا اس کے بعد ۱۲۹۶ھ میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ کاحادثۂ انتقال پیش آیا جو مولانا کے لئے ذاتی اور خاندانی حادثے کے ساتھ ساتھ قومی، ملی اور دینی حادثہ بھی تھا۔ اس حادثہ کے بعد مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری کے انتقال کا حادثہ پیش آیا، وہ حادثہ آپ کے لئے اور آپ کے محبوب مدرسہ مظاہر العلوم کے لئے ایک بڑا علمی حادثہ تھا، ۱۲۹۸ھ میں آپ کے استاذ حضرت مولانا عبدالغنی صاحب مہاجر مدنی اور ۱۲۹۹ھ میں دوسرے استاذ مفتی عبدالقیوم بڑھانوی کا اور ۱۳۰۱ھ میں آپ کے والد ماجد کا، اور ۱۳۰۲ھ میں آپ کے حقیقی ماموں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کا انتقال ہوا جو آپ کے مشفق ومربی اور بہت چاہنے والے ماموں تھے، اس کے چند ہی ماہ بعد آپ کے رشتے کے ماموں، شفیق معلم ومربی، حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی نے بھی جان جان آفریں کے سپرد کی۔ یہ چند سال جن میں یہ حادثے رونما ہوئے تھے آپ کے لئے اعوام الحزن سے کم نہ تھے، نہ صرف آپ کے لئے بلکہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور کے لئے یہ حادثے سخت سے سخت تھے۔ دوہی سال گزرے تھے کہ ۱۳۰۴ھ میں آپ کے استاذادب مدرسہ مظاہرالعلوم کے محسن مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری کاسایہ بھی سروں سے اٹھ گیا، لیکن ان حوادث کے باوجود آپ بھاولپور میں اپنے دینی کاموں اور درس وتدریس ، رشدوہدایت، تقریر وتحریر میں مشغول رہے۔محبوبیت اور مقبولیت : آپ نے بھاولپور میں گیارہ سال اس طرح گزارے کہ عوام وخواص کے دلوں میں اپنے علم وفضل ، زہدوتقویٰ ، استغناء، تعلق مع اللہ کے نقوش بٹھادئیے، آپ کے بھاولپور سے تشریف لانے کے بعد مدتوں تک لوگوں کی زبانوں پر آپ کا تذکرہ اور آپ کی دینی وعلمی خدمات کااعتراف رہا۔ آپ کے بے شمار شاگرد ہوئے جنہوںنے تکمیل علوم کے بعد علم کی دین کی خدمت کی، ان شاگردوں میں ایک شاگر مولوی