حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چھٹا باب مدرسہ مظاہرالعلوم کی صدرمدرسی سے سرپرستی تک مدرسہ مظاہرعلوم میں ابتدا سے ہی مشہور علماء درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے تھے اور مخلص حضرات اس کی تنظیمی ذمہ داریوں کو سنبھالے ہوئے تھے لیکن رفتہ رفتہ علماء مدرسین اور ذمہ داروں کا سایہ اٹھتا رہا۔ مدرسوں کی آمد ورفت اور انتقال اراکین وانتظامیہ کے تغیروتبدل اور وفات کی وجہ سے مدرسہ میں کوئی ایسی وقیع شخصیت باقی نہیں رہی جو مدرسہ کی روح رواں ہو یاجس پرہر ایک کو اعتماد ہو۔ ڈپٹی نجف علی صاحب بھی جومدرسہ کی ہر طرح کی اعانت کرتے تھے، ۱۳۱۳ھ میں اپنے رب سے جاملے اور مدرسہ میں کوئی اہم شخصیت باقی نہ رہ سکی۔حضرت گنگوہی کی سرپرستی مدرسہ : اس قحط الرجال کے دور میں اس مدرسہ کی بقا کے لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی سرپرستی ایک ایسے مردخدا متبع شریعت اور صاحب یقین وایمان شیخ وقت کے سپرد ہو جس کے سایہ عاطفت میںمدرسہ کو وقت اور عزت کا مقام حاصل ہو اور اس کا تعلیمی نظام درست ہو۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ العالی تحریر فرماتے ہیں: ’’ڈپٹی صاحب کے حادثۂ انتقال کے بعد عامۃ القلوب اس طرف متوجہ ہوئے کہ مدرسہ کی خاص طور سے خبر گیری اور اعانت کی جائے، اسی ذیل میں اس طرف بھی توجہ ہوئی کہ مدرسہ کی تربیت عرصہ سے کسی اہل اللہ کے زیر سایہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مدرسہ کی روحانی ترقی مسدود ہے، اس بنا پر مرجع الکل قطب الارشاد مجدد العصر حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی نوراللہ مرقدہ کی ذات مستودہ صفات کی طرف دست التجا بڑھا اور حضرت کی خدمت میں سرپرستی قبول کرنے کی درخواست ممبران کی طرف سے پیش ہوئی، حضرت نوراللہ مرقدہ نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا۔‘‘ حضرت گنگوہی نے ۱۹ ربیع الثانی ۱۳۱۴ھ کو سرپرستی قبول فرمائی اور مدرسہ مظاہر علوم ایک شیخ وقت اور مرشد کامل کی زیر سرپرستی میں آگیا اور خیروبرکت کے مبارک دورمیں داخل ہوگیا۔حضرت مولانا صدر مدرسی کے عہدے پر : حضرت گنگوہی کے سرپرست ہونے کے بعد مدرسہ مظاہرعلوم میں ایک صدر مدرس کی اہمیت بڑھ گئی اور کسی بڑے عالم کی تلاش ہوئی مگر اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔ آخر کار اہل تعلق کی نگاہ حضرت مولانا پر گئی جو دارالعلوم دیوبند میں مدرس دوم تھے اور پھر حضرت گنگوہی کی خدمت میں اپنی ضرورت اور حضرت مولانا کاانتخاب رکھا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ