حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضرت مولانا کی خبرانتقال بجلی کی طرح پھیلی اہل علم حضرات کو اس پر گہرا غم ہوا کہ ایک متبحر عالم ،محدث،فقیہ جاتا رہا اور بزم علم سوتی ہوئی تصوف وسلوک کے شیداؤں اور رہردان راہ عرفان کو دھچکا پہنچا کہ ایک کامل شیخ اور پیر روشن ضمیر کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے،دیکھتے دیکھتے قیامگاہ پر ایک جم غفیر جمع ہوگیا خدام اور علماء نے تجہیزو تکفین میں جلدی کی سید احمد نو اب صاحب مزور نے غسل دیا ابو السعود صاحب نے پانی دیا مولانا سید احمد صاحب فیض آبادی اور مولوی عبدالکریم صاحب نے مددکی اور جنازہ تیار کیا گیا اور آستانہ نبوی کے قریب باب جبریل کے باہر جہاں عموماً نماز جنازہ ہوتی ہے ،آپ کا جنازہ رکھا گیا۔نماز جنازہ : مسجد نبوی میں نماز مغرب ہوئی اور ایسی ہوئی کہ حضرت مولانا تو نہیں تھے آپ کے بجائے آج ان کا جنازہ آستانہ نبوی کے قریب اقدام عالیہ کی طرف رکھا ہوا لوگوں نے دیکھا ،نماز کے بعد مدرسہ عرشیہ کے صدر مدرس مولانا شیخ طیب نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنازہ کو بقیع پاک کے سمت ایک جم غفیر لے کر چلا باوجود جلدی کرنے کے ازدہام اتنا بڑھ چکا تھا کہ کاندھا دینا مشکل ہورہا تھا علماء بھی تھے اور طلباء بھی اہل تعلق بھی تھے اور بے گانے بھی اور سب بادیدہ نم لے کر چل رہے تھے اور زبان حال سہی کہہ رہی تھی ۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلےجنت البقیع میں : مغرب کے بعد نماز جنازہ ہوئی اور عشاء سے پہلے آپ کو ایک برے مجمع نے آغوش لحد میں اتارا یہ منظر کتنا پراثر تھا ہر طرف آدمی ہی آدمی تھے،اہل بیت کے مزارات کے قریب آپ کو جگہ ملی مسجد بنوی سے لیکر جنت البقیع میں تدفین تک کا حال حضرت شیخ کے الفاظ میں سنئے : ’’بایں ضیق وقت کے اطلاع کا موقع ہی نہ ملا جنازہ کے ساتھ اتنا از دہام تھا کہ بہتیروں کو باوجود کوشش کے کندھا دینا نصیب نہ ہوا اور سر یر کو صرف ہاتھ لگا دینا ہی غنیمت معلوم ہوا۔ ؎ اے تماشا گاہے عالم روئے تو تو کنجا بہر تماشا می روی آخر آپ کا جسد انور جو آتش محبت میں گھل گھل کر مغزا ستخوان رہ گیا تھا،فبئہ اہل بیت سے متصل عشاء سے قبل آغوش لحد کے سپرد کردیا گیا وہ شب شب عروس قرار پائی کہ دیر ینہ مراد جو صدہامرتبہ آپ کی زبان اور قلم سے نکلی تھی کہ کاش میری مٹی بقیع کی خاک پاک میں مل جائے الحمدﷲ کہ پوری ہوگئی ۔ اناﷲوانا الیہ راجعون ﷲ ما اخذ ولہ ما اعطی کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام ؎