حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قدوسی صاحب گاڑی سے اترآئے اگلے روز وہ سامان لیکر اسی گاڑی سے حیدرآباد روانہ ہوئے۔ حضرت مولانا کا یہ سفر بظاہر طویل سفر تھا مگر نیت مدینہ منورہ میں مستقل طور پر قیام کی تھی اور لوگوں کو بھی اس کا احساس تھا اس لئے مختلف علاقوں سے کثیر تعداد میں متعلقین ، مخلصین اور عقیدت رکھنے والے حضرات الوداع کرنے کو جمع ہوگئے تھے حضرت شیخ فرماتے ہیں: ’’چونکہ حضرت قدس سرہٗ گویا عمر بھر کے واسطے الوداع فرمارہے تھے اس لئے نہ صرف قرب و جوار بلکہ دور دور کا مجمع الوداع کے واسطے آیا ہوا تھا اور سارا اسٹیشن ڈٹ رہا تھا۔‘‘(آپ بیتی نمبر۴) حضرت مولانا نے حیدرآباد میں ایک ہفتہ قیام فرمایا آپ کے ہمراہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب بھی تھے جو ایک روز بعد حیدرآباد پہونچ گئے تھے،حضرت مولانا کے حیدرآباد میں قیام کرنے سے اہل تعلق کو بڑا دینی فائدہ ہوا،حضرت کے تلقین و ارشاد اور بیعت وارادت سے بہت سے لوگ سرفراز ہوئے اور خود مدرسہ کو فائدہ پہونچا۔حیدرآباد سے بمبئی : حضرت مولانا مع اپنے رفقاء کے ۲۵شوال بروز شنبہ نو بجے صبح کو حیدرآباد سے روانہ ہوئے اور دوسرے دن ۲۶ِشوال یکشنبہ کو بمبئی پہنچے۔ بمبئی میں جب آپ پہنچے تو ایک بڑے مجمع نے آپ کا استقبال کیا آپ نے بمبئی میں اپنے دو سو رفقاء کے ساتھ قیام کیا،یہ قیام بڑا پر کیف تھا اور دور دور سے اہل تعلق آآکر رخصتی ملاقات کرتے سب کی آنکھیں نم اور دل سوز گذار میں ڈوبے ہوئے تھے اور فراق کے تصور سے لرزاں و ترساں سب کی زبان حال گویا تھی۔ حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شدبمبئی سے مکہ مکرمہ : آپ بمبئی سے ۷ِذیقعدہ بروز پنجشنبہ ۱۳۴۴ء مطابق ۲۰ِمئی ۱۹۲۶ھ کو زیّانی نامی جہاز سے روانہ ہوئے۔ حضرت مولانا اپنے دو سو رفقاء کے ساتھ جب بمبئی سے روانہ ہوئے تو وہ منظر بڑا اثر انگیز تھا پہونچانے والے اور رخصت کرنے والے اہل تعلق جو بری تعدادمیں جمع ہوگئے تھے اس تصور سے کہ اب حضرت سے شرف نیاز شاید حاصل نہ ہوسکے ،آبدیدہ ہورہے تھے اور بعض کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں خود حضرت مولانا آبدیدہ ہورہے تھے،ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ حضرت کی نگاہ شفقت اس پر پڑجائے اسی حال میں آپ کی ہندوستان سے گویا آخری روانگی ہوئی اور دیکھتے دیکھتے آپ کا منور چہرہ بے چین آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور زیانی جہاز جس پر آپ سفر کر رہے تھے بمبئی کی گودی سے لنگر اٹھا کر سوئے حجاز روانہ ہوگیا،پہونچانے والوں پر حسرت و یاس کی اور حضرت مولانا اور آپکے ہمراہ جانے والوں پر ذوق و شوق اور انتظار کی کیفیت طاری ہوگئی۔