حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مولانا نانوتوی کے حکم پر آپ کو ذراسی پریشانی ہوئی کہ اتنے بڑے شرائط پر وہ کیسے بھاولپور قیام کرسکیں گے؟ آپ خود فرماتے ہیں: ’’میں نے عذر بھی کیا کہ جن شرائط کا مدرس ان کو درکار ہے مجھ میں مطلق نہیں پائی جاتیں، مگر حضرت مولانا نے فرمایا ، میاں رہنے بھی دو لکھنے والے یوں ہی لکھا کرتے ہیں اور اہل علم اپنے کو یوں ہی سمجھا کرتے ہیں، تم کو اپنی ناقابلیتی یہیں نظر آتی ہے کہ سر پر بڑے موجود ہیں باہر جاکر دیکھوگے تو اتنا بھی کسی کو نہ پاؤگے اس وحشت کو دور کرو اور اللہ کانام لے کر چلے جاؤ بالآخر حضرت مولانا اور حضرت ام ربانی کی رائے متفق ہوگئی اور میں تیس روپے ماہوار پر مدرس ہوکر بھاولپور چلاگیا۔ (تذکرۃ الخلیل)بھاولپور میں : حضرت مولانا بھاولپور پہنچے، بھاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اور اس کے فرمانروا نواب صادق محمد خاں عباسی چہارم تھے، یہ ریاست اپنی دینداری علم پروری میں مشہور تھی، مختلف علاقوں سے علماء جمع ہوگئے تھے اور دینی مدارس مختلف مقاما ت پر کھلے ہوئے تھے، شرعی عدالتیں تھیں، اور ان عدالتوں کے جج عام طور سے اہل علم ہواکرتے تھے، مولوی شمس الدین بھی انہیں میں تھے، حضرت مولانا سیدھے مولوی شمس الدین کے مکان پہنچے اور ان سے ملاقات کی۔مولوی شمس الدین کے سوالات اور آپ کے جوابات : جب آپ کی ملاقات مولوی شمس الدین صاحب سے ہوئی تو مولوی صاحب نے دیکھا کہ ایک صاحبزادے جن کی صورت سے بھولا پن اور متانت ظاہر ہورہی ہے، عمر میں پختگی نہیں تو ان کو یہ محسوس ہو ا کہ جن شرائط اور جن اوصاف وکمالات کے عالم کی میں نے خواہش کی تھی وہ میں ان میں نہیں پاتا تو ان کو حیرت ہوئی کہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے کسی طالب علم کو بھیج دیا، انہوں نے آپ کوآزمانے کے لئے مختلف سولات کرنے شروع کردئیے ۔ حضرت مولانا میں باوجود کم عمری کے کہ ان کی عمر اس وقت صرف چھبیس سال کی تھی، خود اعتمادی، علم میںپختگی ، حاضر جوابی بہت تھی وہ کسی سے نہ مرعوب ہوتے ، نہ علمی سوالات سے پریشان، مولوی شمس الدین کے سوالات پر آپ نے جس طرح جواب دیا اور جو طریقہ اپنایا وہ خود آپ ہی کی زبان سے سنئے: ’’سوالات تفسیر اور قرآن کے متعلق تھے، چنانچہ میں جواب دیتارہا، مگر جب میں نے دیکھا کہ سوالات سے کسی طرح پیچھا ہی نہیں چھوٹتا تو میں نے بھی دو آیتیں قرآن مجید کی پیش کیں کہ ان کاباہمی تعارض رفع ہونے کی کیاصورت ہے؟ بس میرا سوال کرنا تھا تو جج صاحب نے پہلو بدلا اور علمی سوالات چھوڑ کر میرے حالات دریافت کرنے لگے اوراس کے بعد مجھے قیام کی جگہ بتاکر ساری ضروریات کا انتظام کردیا، میں ان کے بچوں کو پڑھاتارہا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۰۵)